اَوَ لَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَرَحۡمَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۵۱﴾

۵۱۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں سنائی جاتی ہے؟ ایمان لانے والوں کے لیے یقینا اس (کتاب) میں رحمت اور نصیحت ہے۔

دوسری آیت 51 میں فرمایا: کیا معجزہ کے لیے یہ کتاب کافی نہیں ہے، یعنی قرآن۔ باقی انبیاء کو جو معجزات دیے گئے ہیں وہ ان لوگوں تک محدود تھے جنہوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ یعنی وہ محدود اور حسی معجزات تھے۔ لیکن قرآن کریم ایک ابدی معجزہ ہے اور کسی زمانے میں محدود نہیں ہے اور یہ عقلی اور علمی معجزہ ہے جو انسان کو اس کی عقلی اور فکری بلوغت کے بعد دیا گیا ہے۔

قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ شَہِیۡدًا ۚ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡبَاطِلِ وَ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے، وہ ان سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ کے منکر ہوئے وہی خسارے میں ہیں۔

52۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر اللہ کی گواہی یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسا کلام نازل کر کے اس رسالت کی حقانیت پر گواہی دی ہے۔ وہ یہ نہیں کہ سکتے کہ قرآن کلام اللہ نہیں ہے، چونکہ قرآن نے بارہا چیلنج کیا ہے کہ اگر یہ کلام اللہ نہیں ہے تو اس جیسا کلام پیش کرو۔

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ ؕ وَ لَوۡ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّی لَّجَآءَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ وَ لَیَاۡتِیَنَّہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں اور اگر ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا اور وہ (عذاب) ان پر اچانک ایسے حال میں آکر رہے گا کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔

53۔ یہ لوگ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ مطالبہ بار بار کر رہے ہیں کہ اگر آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمسچے ہیں تو وہ عذاب لے آئیں جس کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہیں۔ جواب میں فرمایا: اگر حکمت الہٰی کے تحت اس عذاب کا وقت مقرر نہ ہوتا اور عدل الہٰی کے تحت تم کو مہلت دینا ضروری نہ ہوتا تو اس عذاب کے آنے میں دیر نہ لگتی۔

یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں حالانکہ دوزخ کفار کو گھیرے میں لے چکی ہے۔

یَوۡمَ یَغۡشٰہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ وَ یَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے گھیر لے گا اور (اللہ) کہے گا: اب ذائقہ چکھو ان کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔

یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اے میرے مومن بندو! میری زمین یقینا وسیع ہے پس صرف میری عبادت کیا کرو۔

56۔ اگر وطن اللہ کی بندگی میں آڑے آئے اور کسی وطن میں اللہ کی بندگی ممکن نہ ہو تو اللہ کی بندگی کے مقابلے میں وطن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہٰذا خدا کی بندگی ہمیشہ وطنیت اور قومیت پر مقدم ہوا کرتی ہے۔

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ۟ ثُمَّ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے پھر تم ہماری طرف پلٹائے جاؤگے۔

57۔ وطن چھوڑنے اور ایمان لانے سے موت کے مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہر جاندار کے لیے موت مقدر ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ موت کے بعد نجات کس بات میں ہے۔ لہٰذا اس زندگی کے بارے میں زیادہ نہ سوچو کہ اسے ہر صورت میں ختم ہونا ہے، بلکہ اس زندگی کے بارے میں سوچو جو باقی رہنے والی ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ غُرَفًا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ﴿٭ۖ۵۸﴾

۵۸۔ اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں ہم انہیں جنت کے بلند و بالا محلات میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی اچھا اجر ہے۔

الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔

59۔ نیک اعمال دو ستونوں پر قائم ہو سکتے ہیں : صبر و استقامت اور اللہ پر بھروسہ۔ صبر انسان کو مشکلات کے مقابلے میں چٹان کی طرح مضبوط بناتا ہے، توکل اطمینان دلاتا ہے۔ صبر دشمن کی سازشوں کو حقیر دکھاتا ہے، توکل انجام بخیر ہونے کی امید دلاتا ہے۔ صبر دشمن کی حشمت کو نظر انداز کرتا ہے، توکل کو اللہ کی حشمت و قوت نظر آتی ہے۔ صبر ایک عظیم طاقت ہے، توکل اس طاقت کا سرچشمہ ہے۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ دَآبَّۃٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَہَا ٭ۖ اَللّٰہُ یَرۡزُقُہَا وَ اِیَّاکُمۡ ۫ۖ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

60۔ ہجرت کی صورت میں یہ نہ سوچو کہ کاروبار گھر بار چھوڑنے کے بعد پردیس میں کہاں سے کھائیں گے؟ اس سلسلے میں ان پرندوں سے سبق سیکھو جو اپنا رزق ذخیرہ نہیں کرتے۔ اللہ ہر روز کی روزی ان کو عنایت فرماتا ہے۔ ہجرت کر کے جہاں اور جس جگہ جاؤ گے وہاں اللہ روزی پہنچا دے گا۔