وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟

61۔ سوال مشرکین سے ہے کہ اگر آسمانوں اور زمین کا خالق اور سورج اور چاند کو مسخر کرنے والی اللہ کی ذات ہے تو معلوم ہوا کہ تدبیر کائنات کے لیے جو تخلیق و تسخیر چاہیے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔

اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۶۳﴾

۶۳۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد کس نے زندہ کر دیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہدیجئے: الحمد للہ، البتہ اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔

63۔ اسی طرح اگر اللہ بارش برساتا ہے اور وہ زمین کو آباد کرتا ہے تو تمہارے معبود کس پانی اور کس زمین سے تمہیں روزی فراہم کرتے ہیں؟

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیں کچھ علم ہوتا۔

64۔ دنیا کی وہ زندگی جو مرضی رب کے خلاف اختیار کی جاتی ہے وہ بے مقصد زندگی ہے اور خود انسان بھی اس صورت میں نیچر(Nature)کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے یعنی اس کا مشقت اٹھانا، بیمار ہونا اور مر جانا سب بے مقصد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے تمام کاموں کی مقصدیت ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہوتی۔ البتہ اگر یہ دنیاوی زندگی آخرت کے لیے مرضی رب کے ساتھ گزار دی جائے تو اس زندگی کا ہر لمحہ نہایت قیمتی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ آخرت کی زندگی کے کھربوں سالوں کے لیے تقدیر ساز ثابت ہو سکتا ہے۔

لَہِیَ الۡحَیَوَانُ : آخرت کی زندگی ہی زندگی ہے۔ اس حقیقی اور دائمی زندگی کو بعض اہل تحقیق کے مطابق قرآن نے ایک ہزار سات سو آیات میں بیان فرمایا ہے۔ یعنی قرآن کا ایک تہائی حصہ اس زندگی کو باور کرانے کے لیے ہے۔

فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الۡفُلۡکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اِذَا ہُمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۶۵﴾

۶۵۔ وہ جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔

65۔ اگر تمہارے معبود سمندروں میں تمہاری فریاد کو نہیں پہنچ جاتے تو خشکی میں تمہاری کون سی مدد کر سکیں گے؟

یہ ہیں مشرکین کے عقائد میں تضادات اور فکری اضطراب کہ ان کا موقف خود ان کے نظریات کو باطل ثابت کرتا ہے۔

لِیَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ ۚۙ وَ لِیَتَمَتَّعُوۡا ٝ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ تاکہ ہم نے جو انہیں (نجات) بخشی ہے اس کی ناشکری کریں اور مزے لوٹیں لہٰذا عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنۡ حَوۡلِہِمۡ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَۃِ اللّٰہِ یَکۡفُرُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنا دیا ہے جب کہ لوگ ان کے گرد و نواح سے اچک لیے جاتے تھے؟ کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔

67۔ عرب جاہلیت کی اس بدامنی میں ایک امن کی جگہ (مکہ) تمہارے لیے کس نے بنائی؟ یہ امن کی جگہ اللہ نے بنائی پھر بھی یہ لوگ اس کی قدردانی نہیں کرتے۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے اور جب حق اس کے سامنے آ چکا ہو تو اس کی تکذیب کرے؟ کیا جہنم میں کفار کے لیے ٹھکانا نہیں ہے؟

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿٪۶۹﴾

۶۹۔ اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

69۔ پہلے ہم راہ خدا میں جہاد کریں پھر اللہ سے مشکل کشائی کی امید رکھیں۔ لہٰذا ہمیں پہل کرنا ہو گی، پھر ہم اللہ کی ہدایت کے اہل ہوں گے۔ یہ درست نہیں ہے کہ اللہ سے توقع وابستہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں تاکہ وہ ہمیں مفت میں ہدایت دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ اللہ پہل نہیں کرتا۔ کیونکہ اگر اللہ پہل کرے تو بلا استحقاق سب کو دے یا بعض کو بلاوجہ دے بعض کو بلا وجہ نہ دے یہ سب اللہ کی حکمت اور عدالت کے منافی ہے۔