آیت 22
 

یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا﴿۲۲﴾

۲۲۔ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کے لیے مسرت کا دن نہ ہو گا اور وہ (فرشتے ) کہیں گے:(تمہارے لیے مسرت) حرام ممنوع ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ: وہ دنیا میں فرشتوں کے نزول کی توقع رکھتے ہیں۔ البتہ ان کا فرشتوں سے واسطہ پڑنے والا ہے ان کی قبض روح یا جہنم کی طرف ہانکنے کے لیے۔ جب یہ مشرکین فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کو کوئی مسرت نہ ہو گی۔

۲۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ: فرشتے ان مجرموں سے کہہ رہے ہوں گے۔ تمہارے لیے آج ہر قسم کی مسرت حرام ممنوع ہو گئی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یَقُوۡلُوۡنَ کا تعلق مجرموں سے ہے کہ خود مجرمین کہیں گے: ہمارے لیے مسرت حرام ممنوع ہے۔ یہاں فرشتوں سے واسطہ پڑنے کا ذکر ہے لیکن اللہ کے قیامت کے دن نظر آنے کا ذکر نہیں ہے چونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ کفار کی طرف سے دو باتیں اٹھائی گئیں: ایک یہ کہ ہم پر فرشتے نازل کیوں نہیں ہوتے؟ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا کہ ان کو فرشتوں سے واسطہ پڑنے والا ہے۔

دوسری بات کفار نے یہ کی کہ ہم اللہ کو کیوں نہیں دیکھ پاتے؟ اس کے جواب میں مثلاً یہ نہیں فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کو دیکھنے کا وقت آئے گا تو کافر لوگ اللہ کی زیارت نہیں کر سکیں گے بلکہ جواب میں فرمایا: وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا اللہ کو دیکھنے کی توقع رکھ کر ان لوگوں نے بڑی گستاخی کی ہے۔

۳۔ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا: الحجر ممنوع کو کہتے ہیں:

وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنۡعَامٌ وَّ حَرۡثٌ حِجۡرٌ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۳۸)

اور یہ کہتے ہیں: یہ جانور اور کھیتی ممنوع ہیں۔

عربوں میں یہ جملہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب حرمت کے مہینوں میں کسی کی طرف سے حملے کا خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ الامان کی جگہ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا کہتے ہیں۔ ان مہینوں میں قتال حرام ممنوع ہے۔

اہم نکات

۱۔ مجرمین پر فرشتے نازل ہوں گے مگر عذاب لے کر۔


آیت 22