آیت 21
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے؟ یہ لوگ اپنے خیال میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور بڑی حد تک سرکش ہو گئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَ: مشرکین معاد اور اللہ کے سامنے حساب دینے کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی زندگی قیامت، ثواب و عقاب کی بنیاد پر نہیں گزارتے تھے۔ وہ اگر کسی کو معبود بناتے تھے تو اس سے اپنی دنیوی حوائج کی توقع رکھتے تھے۔ انکار معاد کی بنیاد پر وہ انکار رسالت کرتے تھے۔

۲۔ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ: ان کا ایک اعتراض یہ تھا: اگر ایک بشر رسول بن سکتا ہے، اس پر فرشتے نازل ہوتے ہیں تو ہم بھی بشر ہیں، ہم پر فرشتے نازل کیوں نہیں ہوتے یا فرشتے ہم پر نازل ہو کر کیوں نہیں کہتے: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برحق رسول ہیں؟

۳۔ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا: یا ہم اپنے رب اللہ کو کیوں نہیں دیکھ سکتے کہ ہم سے بھی بالمشافہ بات کرے یا بتا دے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برحق ہیں؟

۴۔ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا: ان بے حیثیت لوگوں نے اس قدر تکبر کیا کہ اپنے آپ کو فرشتوں کے نزول کا اہل سمجھنے لگے۔

۵۔ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا: اور یہ کہہ کر ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ سکتے، بڑی سرکشی کی ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ خیال کہ وہ انسان کے حاسہ بصر کے احاطے میں آ سکتا ہے، شان الٰہی میں بڑی گستاخی ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کا تصور راسخ نہ ہو تو سرکشی آجاتی ہے۔


آیت 21