وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبا، شوہر کے آبا، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔

31۔ عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ غیر مردوں کی طرف عمداً نہ دیکھیں۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ و حضرت میمونہ کا واقعہ مشہور ہے کہ جب ابن ام مکتوم رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں داخل ہوئے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں سے فرمایا : پردہ کرو۔ بیبیوں نے عرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! کیا وہ اندھے نہیں ہیں؟ وہ نہ ہمیں دیکھیں گے، نہ پہچانیں گے۔ فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں انہیں نہیں دیکھ سکتیں؟

اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا ۔ سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔ احادیث کے مطابق چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک اور دونوں قدم مراد ہیں، اگر کوئی دوسری روایت اس کے معارض نہ ہو۔ وَ لۡیَضۡرِبۡنَ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔ دور جاہلیت میں عورتیں اپنے سینوں کو کھلا رکھتی تھیں۔ اس آیت میں یہ حکم آیا کہ جس چادر سے عورتیں اپنے سروں کو چھپاتی ہیں ان سے سینوں کو بھی چھپائیں۔ رہا چہرے کا مسئلہ کہ اس کا چھپانا واجب ہے یا نہیں تو یہ اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا، مگر یہ کہ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا کی تفسیری روایات کو قبول کیا جائے۔

یہ بات فقہاء پر موقوف ہے کہ وہ روایات و سیرت سے کیا حکم ثابت کرتے ہیں۔ ان مردوں سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں جن میں جنسی رغبت نہیں ہے اور ان بچوں سے بھی جن کی جنسی رغبت ابھی بیدار نہیں ہوئی۔

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔

32۔ اِیۡمَ : بے عورت مرد اور بے مرد عورت کو کہتے ہیں۔ وَ الصّٰلِحِیۡنَ : جو ازدواج کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شادی کرنے اور گھر بسانے سے فقر و تنگدستی دور کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے تو جیسے خرچ بڑھتا ہے، آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے: من ترک التزویج مخافۃ العیلۃ فقد اساء ظنہ باللّٰہ عز و جل (الکافی 5: 330) جو تنگدستی کے خوف سے شادی نہ کرے اس نے اللہ کے ساتھ بدگمانی کی ہے۔

وَ لۡیَسۡتَعۡفِفِ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغۡنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا ٭ۖ وَّ اٰتُوۡہُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَنۡ یُّکۡرِہۡہُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِکۡرَاہِہِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۳﴾

۳۳۔ جو لوگ نکاح کا امکان نہ پائیں انہیں عفت اختیار کرنی چاہیے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں خوشحال کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کی خواہش رکھتے ہوں ان سے مکاتبت کر لو۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں کوئی خیر ہے اور انہیں اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو اور تمہاری جوان لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو انہیں دنیاوی زندگی کے متاع کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور اگر کوئی انہیں مجبور کر دے تو ان کی اس مجبوری کے بعد یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

33۔ مکاتب : اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے معاہدہ کر لیتا ہے کہ ایک معین رقم ادا کرنے پر وہ آزاد ہو جائے گا۔ اگر کسی وجہ سے مکاتبت کے بعد غلام رقم ادا کرنے سے عاجز رہ جائے تو زکوٰۃ سہم وَ فِی الرِّقَابِ سے یہ رقم ادا کی جائے گی۔

وَ لَا تُکۡرِہُوۡا : جاہلیت کے زمانے میں لوگ لونڈیاں اس غرض سے خریدتے تھے کہ ان لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کر کے ان کو کمائی کا ذریعہ بنائیں۔

وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ اور بتحقیق ہم نے تمہاری طرف واضح کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرنے والوں کی مثالیں بھی اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے موعظہ بھی (نازل کیا ہے)۔

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ رکھا ہوا ہے ، چراغ شیشے کے فانوس میں ہے، فانوس گویا موتی کا چمکتا ہوا تارا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس کا تیل روشنی دیتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے، یہ نور بالائے نور ہے، اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بھی بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

35۔ ہم اس عالم ناسوت میں اشیاء کو ان کی اضداد سے پہچانتے ہیں۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو ہم نور سے ناواقف ہوتے، اگر تری نہ ہوتی تو خشکی ہمارے لیے ناقابل فہم ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ضد نہیں ہے۔ وہ ظہور محض اور نور ہے، جس کے مقابلے میں کوئی تاریکی نہیں ہے۔ وہ اگر ہم سے پوشیدہ ہے تو شدت ظہور اور فرط نور کی وجہ سے ہے، کسی تاریکی یا حائل کی وجہ سے نہیں، جیسا کہ دعاؤں میں آیا ہے: یا باطناً فی ظھورہ ۔ اس طرح نور کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بذات خود ظاہر ہوتا ہے اور دوسروں کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کل کائنات میں بذات خود ظاہر و آشکار ہے، وہ کسی پردﮤ خفا میں نہیں ہے۔ چونکہ جب ہر چیز کا ظہور اللہ کی طرف سے ہے تو خود اللہ کا ظہور سب سے زیادہ عیاں ہو گا۔ اگر کسی کے لیے عیاں نہیں تو یہ اس کی اپنی نا اہلی ہے۔

اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ : یہ چراغ شیشے کے فانوس میں ہے۔ اس میں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ شیشے کے فانوس کی وجہ سے یہ روشنی ہر سو پھیلتی ہے۔ دوسری یہ کہ نور فانوس میں ہے۔ کسی آندھی سے متاثر نہیں ہوتا: یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ.... (توبہ:32)

یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ : اس نور کا تعلق اس درخت سے ہے، جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ شرقی اور غربی کی یہ تفسیر کی گئی ہے کہ یہ درخت نہ تو مغربی جانب ہے کہ مشرق کی دھوپ نہ پڑے، نہ مشرقی جانب ہے کہ مغرب کی دھوپ نہ پڑے۔ یہ درخت سارا دن روشنی لیتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس سے نکلنے والا تیل بہتر روشنی دیتا ہے۔

وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ : اگرچہ آگ نہ چھوئے۔ اس مثال سے ذہن اس طرف نہ جائے کہ یہ نور آگ سے پیدا ہونے والی شعاع کی طرح ہے۔

نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ : یہ نور فانوس میں ہونے، فانوس کا موتی کے چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح ہونے اور ایک خاص منفرد درخت سے ہونے کی وجہ سے اس کا نور کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔

یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ : یعنی ایمان کا نور جو اللہ کی طرف سے ہے، ان لوگوں کے دلوں کو منور کرتا ہے، جنہیں اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کی چاہت اندھی بانٹ نہیں بلکہ اللہ ان لوگوں کو منور کرنا چاہے گا جو اس کے اہل ہیں۔

فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ (ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔

36۔اس نورخدا سے منور افراد ایسے گھروں میں ہیں جن کی قدر و منزلت باذن خدا بلند ہے، کیونکہ ان گھروں میں ذکر خدا ہوتا ہے۔ مردویہ نے انس بن مالک اور بریدہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! کون سے گھر مراد ہیں؟ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: انبیاء کے گھر۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور پوچھنے لگے: یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! کیا علی علیہ السلام اور فاطمہ علیہ السلام کا گھر انہی گھروں میں سے ہے؟ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہاں! ان سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنثور 5: 91)

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ﴿٭ۙ۳۷﴾

۳۷۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہو جاتے ہیں۔

37۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو لوگ نماز کے وقت تجارت چھوڑ کر نماز کے لیے جاتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کرتے ہیں جو تجارت نہیں کرتے۔

لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾

۳۸۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔

38۔ بہترین اعمال یعنی نیکیوں کی جزا دس گنا ہے۔ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ، اللہ اپنے فضل سے مزید بھی عطا کرے گا۔ یعنی دس گنا سے بھی مزید، استحقاق کی بنیاد پر نہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفضل کی بنیاد پر۔ اس تفضل کی کسی حد بندی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ تفضل بغیر حساب ہو گا، یعنی بے پایاں ہو گا۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں سراب،جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے تو اللہ اس کا حساب پورا کر دیتا ہے اور اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ یا ان کی مثال اس تاریکی کی طرح ہے جو گہرے سمندر میں ہو جس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو اس پر ایک اور موج ہو اور اس کے اوپر بادل، تہ بہ تہ اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، جب انسان اپنا ہاتھ نکالے تو وہ اسے نظر نہ آئے اور جسے اللہ نور نہ دے تو اس کے لیے کوئی نور نہیں۔

40۔ جو لوگ نور ایمان سے منور ہوتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا: وہ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اس نور الٰہی سے محروم ہوتے ہیں، وہ ظلمت در ظلمت ہوتے ہیں۔ کیونکہ نور کا واحد سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ جسے اللہ نور نہ دے اس کو نور دینے والا کوئی نہ ہو گا۔