آیت 36
 

فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ (ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فِیۡ بُیُوۡتٍ: جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کے لیے فراہم کردہ ہدایت کو روشن طاق کے ساتھ تشبیہ دی تو اس آیت میں ہدایت کے اس روش چراغ کے مقامات کا ذکر فرمایا کہ اس روشن چراغ نے کہاں سے اپنی ضوفشانی کرنا ہے۔ فرمایا: فِیۡ بُیُوۡتٍ یہ مشکوۃ ایسے گھروں میں ہوں گے جن کے احترام کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ اللہ کی ہدایت کی روشنیاں پھیلنے کے گھروں میں سرفہرست ابنیاء علیہم السلام کے گھر ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے۔

ہی بیوت الانبیاء و بیت علی ع منھا ۔ (تفسیر القمی ۲: ۱۰۳)

بُیُوۡتٍ سے مراد انبیاء کے بیوت ہیں اور علی علیہ السلام کا گھر بھی انہیں میں سے ہے۔

حضرت انس اور بریدۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ کون سے گھر ہیں؟ قال بیوت الانبیاء ۔ فرمایا: انبیاء کے گھر ہیں۔ حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا علی اور فاطمہ کا گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے؟

قال نعم من افاضلھا ۔ (۱ الدر المنثور ۔۵:۵۰ نیز ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۔۱:۵۳۳، تفسیر ثعلبی الکشف والبیان ۷:۱۰۷ روح المعانی ۹:۳۶۷)

فرمایا: ہاں! ان میں افضل گھروں میں سے ہے۔

صاحب مجمع البیان فرماتے ہیں: اس حدیث کی تائید آیۂ تطہیر سے ہو جاتی ہے جو بیت رسول کے رہنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی:

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (۳۳ احزاب:۳۳)

اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

۲۔ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ: اللہ تعالیٰ نے اذن دیا ہے کہ ان گھروں کو رفعت دی جائے۔ ان گھروں کی تعظیم کی جائے۔ اذن دیا ہے یعنی اجازت دی ہے۔ اجازت دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس عمل کا انجام دینا جائز ہے، کوئی مانع نہیں۔ اعلانِ عدم مانع کو اذن کہتے ہیں۔

اس سے تو یہ مفہوم ہو سکتا تھا کہ ان گھروں کی تعظیم جائز اور بلا مانع ہے لیکن بعد کا جملہ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ان گھروں میں ذکر خدا کا اذن ہے، سے معلوم ہوا کہ اس اذن کا مطلب صرف جواز نہیں بلکہ یہ تعظیم اللہ کو مطلوب ہے۔

۳۔ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا: ان گھروں کی تعظیم اس وجہ سے مطلوب ہے کہ یہاں ذکر خدا اور اس کی تسبیح و تقدیس ہوتی ہے۔ کوئی جگہ بذات خود قابل تعظیم نہیں ہوتی جب تک اس کی اللہ کے ساتھ کوئی نسبت نہ ہو۔ اگرچہ ہر وہ گھر جس میں ذکر خدا ہوتا ہے قابل احترام ہے تاہم احادیث کے مطابق مساجد اور انبیاء و اوصیاء کے گھر مرکز ذکر خدا ہونے کے اعتبار سے قابل تعظیم ہیں۔

اہم نکات

۱۔ جن گھروں کو اللہ نے رفعت و بلندی عطا کی ہے ان کی اہانت کرنے والے قیامت سے پہلے ہی پشیمان ہوں گے۔


آیت 36