آیت 37
 

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ﴿٭ۙ۳۷﴾

۳۷۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہو جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ رِجَالٌ: یسبح فیھا رجال جن گھروں کی تعظیم کا حکم ہے ان میں ایسے مردان حق مشغول تسبیح ہوتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت ذکر خدا سے غافل نہیں کرتی۔

۲۔ تِجَارَۃٌ: ایک پیشہ ہے۔ جب کہ بیع ایک وقتی عمل ہے۔ مثلاً عین نماز کے وقت تجارتی قافلہ پہنچ جاتا ہے اور ایک شخص کو اس سے کچھ خریدنا ہے تو وہ نماز میں تاخیر کر کے خرید میں مشغول نہیں ہوتا۔

یہ رجال ذکر خدا، اقامہ نماز ،ادائے زکوۃ کے مقابلے میں دنیوی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے۔ ذکر خدا کے بعد اقامۂ نماز کے ذکر سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ذکر خدا، نماز کے علاوہ ہے۔ مثلاً تجارت اور بیع کے موقع پر اگرچہ نماز کا وقت نہیں ہے لیکن تجارت اور بیع میں حلال و حرام کا خیال رکھنا ذکر خدا و خوف قیامت کی وجہ سے ہو گا۔ یہاں ذکر خدا اور اقامۂ نماز میں فرق سامنے آتا ہے۔

۳۔ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ: قیامت کے دن قلب و بصر میں انقلاب آئے گا۔ اب انسان وہ چیزیں دیکھنے لگے گا جو یہاں نہیں دیکھ سکتا تھا:

اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا (۱۷ بنی اسرائیل:۱۴)

پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج اپنے حساب کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

وَ بَدَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَحۡتَسِبُوۡنَ (۳۹ زمر:۴۷)

اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا۔

فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ (۵۰ ق:۲۲)

بے شک تو اس چیز سے غافل تھا چنانچہ ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے لہٰذا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔

ممکن ہے تَتَقَلَّبُ کا مطلب یہ ہو کہ خوف و ہراس کی شدت کی وجہ سے قلب و بصر اپنے ٹھکانے پر نہ ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ قابل تعظیم گھروں میں رہنے والے کبھی دنیوی مفاد کو اللہ کی بندگی پر مقدم نہیں کرتے۔


آیت 37