اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

41۔ اس کائنات میں صرف انسان نہیں ہر چیز اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے، آسمان و زمین کی موجودات کو اپنی تسبیح کا شعور اور علم ہے۔ کنکریاں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ میں اور پہاڑ داؤد علیہ السلام کی ہمراہی میں تسبیح پڑھتے تھے۔

کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ : ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔ اس جملے سے واضح ہوا کہ ان تمام چیزوں کی طرف سے تسبیح و نماز علم اور شعور سے صادر ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ تسبیح و نماز سے مراد ان اشیاء کی تخلیق میں کارفرما حکمت اور احتیاج ہے، آیت کی تصریح کے خلاف ہے۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر اسے باہم جوڑ دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے؟ پھر آپ بارش کے قطروں کو دیکھتے ہیں کہ بادل کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور آسمان سے پہاڑوں (جیسے بادلوں) سے اولے نازل کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو ختم کر دے۔

43۔ یہاں آسمان سے مراد بلندی ہے اور پہاڑ سے مراد ابر میں موجود وافر مقدار کی برف ہے۔ کسی چیز کی کثرت کو پہاڑ کہنا محاورہ ہے اور سردی سے جمے ہوئے بادل پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں، ممکن ہے انہی بادلوں کو آسمان کا پہاڑ کہا گیا ہے۔ چنانچہ یہ بات مشاہدے میں بھی آ گئی ہے کہ بادل جب اوپر کی طرف اٹھتے ہیں تو ان کی چوٹیوں پر برف کی ایک تہ جمی ہوئی ہوتی ہے۔ حدیث رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ السَّحَابَ غَرَابِیلَ لِلْمَطَرِ ہِیَ تُذِیبُ الْبَرَدَ حَتَّی یَصِیرَ مَائً لِکَیْ لَا یُضِرَّ بِہِ شَیْئاً یُصِیبُہُ ۔ (الکافی 8: 239)

اللہ تعالیٰ نے بادل کو باران کے لیے چھلنی بنایا ہے جو برف کو پگھلا دیتا ہے کہ پانی ہو جائے تاکہ کسی چیز پر لگ جائے تو اسے ضرر نہ پہنچے۔

یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اللہ شب و روز کو بدلتا رہتا ہے جس میں صاحبان بصیرت کے لیے یقینا عبرت ہے۔

وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی بَطۡنِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی رِجۡلَیۡنِ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰۤی اَرۡبَعٍ ؕ یَخۡلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور اللہ نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے خلق فرمایا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر، اللہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

45۔ یہ بات مسلمات میں سے ہو گئی ہے کہ ہر جاندار کی تخلیق میں اصل پانی ہے، خواہ ہم نطفہ مراد لیں خواہ پروٹوپلازم مراد لیں جس کا غالب حصہ پانی ہی ہوتا ہے۔

لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۴۶﴾

۴۶۔ بتحقیق ہم نے حقیقت بیان کرنے والی آیات نازل کیں اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی رہنمائی فرماتا ہے ۔

46۔ قرآن حقیقت بیان کرنے والی آیات پر مشتمل ہے، جس میں انسان کے لیے ایک جامع دستور حیات ہے۔ اس دستور حیات کی ہدایت صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ بندے کو اس ہدایت کا اہل بننا ہوتا ہے۔

وَ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالرَّسُوۡلِ وَ اَطَعۡنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِکَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں: ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت بھی کی پھر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ پھر جاتا ہے، یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں۔

47۔ جب دعوائے ایمان کی نوبت آئے تو کسی سے پیچھے نہیں رہتے، لیکن اطاعت اور عمل کی نوبت آئے تو سب سے پیچھے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ سرے سے مومن نہیں ہیں۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان ہوتا تو اس کے آثار ان کے کردار میں نظر آتے۔

وَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے تو ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے۔

48۔ مقدموں کے فیصلے کے لیے اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بلانے سے واضح مراد اسلامی قانون ہے، جس کا ماخذ قرآن و حدیث ہے۔ اسلامی قانون سے روگردانی خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمسے روگردانی ہے۔

وَ اِنۡ یَّکُنۡ لَّہُمُ الۡحَقُّ یَاۡتُوۡۤا اِلَیۡہِ مُذۡعِنِیۡنَ ﴿ؕ۴۹﴾

۴۹۔ اور اگر حق ان کے موافق ہو تو فرمانبردار بن کر رسول کی طرف آ جاتے ہیں۔

49۔ جو لوگ صرف اپنے مفاد کی خاطر اسلامی شریعت کا سہارا لیتے ہیں وہ در حقیقت شریعت کی اطاعت نہیں، بلکہ اپنے مفاد کی پیروی کرتے ہیں۔

اَفِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَمِ ارۡتَابُوۡۤا اَمۡ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّحِیۡفَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ بَلۡ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿٪۵۰﴾ ۞ؓ

۵۰۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا انہیں کوئی شبہ یا ڈر ہے کہ کہیں اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ ظلم نہ کریں؟ (نہیں) بلکہ یہ لوگ خود ظالم ہیں۔

50۔ جو لوگ احکام شریعت پر عمل نہیں کرتے، ان کے دلوں میں یا تو سرے سے ایمان نہیں ہے یا وہ اللہ اور اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تذبذب میں ہیں یا وہ اللہ و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انصاف کی توقع نہیں رکھتے۔ ان تینوں صورتوں میں یہ نادان خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔