آیت 39
 

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں سراب،جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے تو اللہ اس کا حساب پورا کر دیتا ہے اور اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

سراب:

( س ر ب ) گرمی میں جو ریت پانی کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے اسے سراب کہا جاتا ہے۔ اسی سے ہر بے حقیقت چیز کو سراب کہا جاتا ہے۔

بِقِیۡعَۃٍ:

( ق ی ع ) ہموار میدان۔

الظَّمۡاٰنُ:

( ظ م ء ) پیاس کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ: کافر اپنے اعمال کا ثواب دنیا میں ملنے کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ بتوں کی پوجا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے دنیوی مسائل حل ہو جائیں۔ وہ اپنے معبودوں کو خوش کر کے جو جزا لینا چاہتے ہیں وہ ایک سراب کی طرح ہے کہ اس کے واہمہ کی نگاہ میں بہت دلفریب ہے مگر حقیقت و واقعیت سے عاری۔ قیامت کے دن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایک ہیچ کے پیچھے گئے ہوئے تھے۔

۲۔ وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ: البتہ اللہ کے پاس اپنے برُے اعمال کی سزا موجود پائیں گے۔

۳۔ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ: اب اللہ اس کا پورا پورا حساب چکا دے گا۔

اگر کافروں میں اہل کتاب کو بھی شامل سمجھا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ لوگ جو نیک اعمال بجا لائیں گے وہ کفر کی وجہ سے حبط ہو جائیں گے۔ قیامت کے دن ان کے تمام اعمال سراب کی مانند ہوں گے جن سے وہ قیامت کی پیاس بجھانے کی توقع رکھتے ہوں گے لیکن نامہ اعمال دیکھنے پر پتہ چلے گا: لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا ۔

اہم نکات

۱۔ کافر اپنی تمام تر توقعات ایک سراب سے وابستہ کر رکھتا ہے۔


آیت 39