وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے۔

41۔ ابراہیم علیہ السلام اپنے ایمان بالتوحید میں سچائی کے اس مقام پر فائز تھے کہ ان کے ذہن و خیال میں بھی غیر اللہ کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس لیے وہ وقت کے طاغوت کے مقابلے میں تنہا ڈٹ گئے۔

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا یَسۡمَعُ وَ لَا یُبۡصِرُ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡکَ شَیۡئًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) سے کہا: اے ابا! آپ اسے کیوں پوجتے ہیں جو نہ سننے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی آپ کو کسی چیز سے بے نیاز کرتا ہے۔

42۔ سماعت اور بصارت تو ناتواں حیوانوں میں بھی ہوتی ہیں۔ تم ایسی چیز کی پوجا کرتے ہو جو ان ناتواں حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔

یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا﴿۴۳﴾

۴۳۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

43۔ علم ہی کو قیادت اور رہنمائی کا حق ملتا ہے اور علم والوں کی پیروی کی جاتی ہے، ورنہ جاہل بقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام یا زیادتی کرتا ہے یا کوتاہی۔

یٰۤاَبَتِ لَا تَعۡبُدِ الشَّیۡطٰنَ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ عَصِیًّا﴿۴۴﴾

۴۴۔ اے ابا! شیطان کی پوجا نہ کریں کیونکہ شیطان تو خدائے رحمن کا نافرمان ہے۔

44۔ شیطان کی عبادت سے مراد اطاعت ہے۔ یہاں شیطان کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے۔

یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ فَتَکُوۡنَ لِلشَّیۡطٰنِ وَلِیًّا﴿۴۵﴾

۴۵۔ اے ابا! مجھے خوف ہے کہ خدائے رحمن کا عذاب آپ کو گرفت میں لے لے، ایسا ہوا تو آپ شیطان کے دوست بن جائیں گے۔

قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِہَتِیۡ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا﴿۴۶﴾

۴۶۔ اس نے کہا: اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہو گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے ضرور سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت کے لیے مجھ سے دور ہو جا۔

46۔ منکر کے پاس جب منطق نہیں ہوتی تو طاقت کے استعمال پر اتر آتا ہے، لیکن جس کے پاس منطق ہوتی ہے وہ اس دھمکی کے جواب میں سلام پیش کرتا ہے اور مغفرت طلب کرتا ہے۔

اٰلِــہَـتِيْ الہٌ کی جمع ہے۔ وہ اپنے بہت سے معبودوں کا ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ کلدانی مذہب میں ان کے معبودوں کے پانچ ہزار تک ناموں کے کتبوں کا انکشاف ہوا ہے۔

وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا : آزر نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پاس سے ایک طویل مدت یا ہمیشہ کے لیے دور ہونے کو کہا۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آزر کے پاس ہوتے تھے۔ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد اس وقت زندہ نہیں تھے۔

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیۡکَ ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا﴿۴۷﴾

۴۷۔ ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقینا وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔

47۔ واضح رہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتدائے دعوت میں آزر کے لیے استغفار کی۔ یہ استغفار ایک مدت تک کے لیے تھی۔ جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سَاَسۡتَغۡفِرُ کا وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ دعوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ابتدائی دنوں کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واضح ہو گیا تھا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزاری اختیار کی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی آخری زندگی میں اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں:

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ۔ (ابراہیم: 41) اس سے معلوم ہوا کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہیں ہیں۔ آزر تو اللہ کا دشمن تھا۔ اس سے بیزاری ہوئی تھی۔ اب آخری عمر میں اس کے لیے طلب مغفرت کیسے ممکن ہے۔

وَ اَعۡتَزِلُکُمۡ وَ مَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا۔

فَلَمَّا اعۡتَزَلَہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۙ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا نَبِیًّا﴿۴۹﴾

۴۹۔ پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے ان سے کنارہ کش ہوئے تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور سب کو ہم نے نبی بنایا ۔

49۔ آپ نے ترک وطن کر کے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں صالح اولاد سے نوازا اور ان کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رکھا۔

وَ وَہَبۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِیًّا﴿٪۵۰﴾

۵۰۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلیٰ درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا ۔

50۔ لسان صدق سے مراد ثنائے جمیل ہے جس میں سچائی کے سوا کسی اور بات کا شائبہ نہ ہو۔ چنانچہ آج دنیا کے تمام ادیان، یہود، مسیح اور اسلام سب آپ کی تجلیل کرتے ہیں۔