وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾

۳۱۔ اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے ۔

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا ۔

ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ یہ ہیں عیسیٰ بن مریم، (اور یہ ہے) وہ حق بات جس میں لوگ شبہ کر رہے ہیں۔

34۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حق پر مبنی واقعہ یہ ہے کہ وہ عبد خدا ہیں۔ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ ان کو کتاب دی گئی۔ نہ کہ وہ فرزند خدا ہیں جیسا کہ عیسائیوں کا نظریہ ہے۔ نہ ان کی ولادت با طہارت میں شک ہے جیسا کہ یہود کی طرف سے الزام ہے۔

مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾

۳۵۔ اللہ کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس سے فرماتا ہے: ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔

35۔ اللہ اور باقی کائنات کا تعلق کن فیکونی والا ہے۔ یعنی خلق و ایجاد ہے، نہ تولید۔

وَ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور یقینا اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے پس اس کی بندگی کرو، یہی راہ راست ہے۔

36۔ اس آیہ مبارکہ میں فرمایا: چونکہ اللہ ہی رب ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم نے عبادت کی یہ تعریف اختیار کی ہے: کسی کی تعظیم اس عنوان سے کی جائے کہ وہ رب اور خالق ہے۔ لہٰذا اگر کسی کی تعظیم رب اور خالق کے عنوان سے نہ ہو تو یہ تعظیم عبادت اور شرک نہیں ہے۔

فَاخۡتَلَفَ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَیۡنِہِمۡ ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ مَّشۡہَدِ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۳۷﴾

۳۷۔ مگر (مختلف) فرقوں نے باہم اختلاف کیا پس تباہی ان کافروں کے لیے ہو گی بڑے دن کے حاضر ہونے سے۔

37۔ مسیحی فرقوں کے آپس کے اختلافات کا ذکر ہے۔ کلیسا کی تاریخ نزاعات و اختلافات پر ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے یہ اختلاف رونما ہوا کہ حضرت مسیح اللہ ہیں یا رسول۔ ایک نظریہ تو یہ تھا کہ مسیح اللہ کے رسول ہیں۔ دوسرا یہ کہ رسول ضرور ہیں لیکن ایک خاص مقام ہے۔ تیسرا یہ کہ مسیح اللہ کے بیٹے اور مخلوق ہیں۔ چوتھا یہ کہ اللہ کے بیٹے ہیں، مخلوق نہیں ہیں، باپ کی طرح قدیم ہیں۔ اس کے بعد روح القدس کے بارے میں ایک اور اختلاف پیدا ہوا۔ کچھ نے کہا روح القدس کو بھی خدا کا درجہ حاصل ہے۔ کچھ منکر ہو گئے۔ سن 381 عیسوی میں قسطنطنیہ میں ایک فیصلے کے تحت روح القدس کو خدا کے درجے پر فائز کیا گیا اور تثلیث کے نظریے کو آخری شکل دے دی گئی۔ اس کے بعد حضرت مسیح کے انسانی، خدائی، ملکوتی، لاہوتی اور ناسوتی پہلوؤں پر اختلافات رونما ہوئے۔

اَسۡمِعۡ بِہِمۡ وَ اَبۡصِرۡ ۙ یَوۡمَ یَاۡتُوۡنَنَا لٰکِنِ الظّٰلِمُوۡنَ الۡیَوۡمَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۸﴾

۳۸۔ جس دن وہ ہمارے سامنے ہوں گے تو اس وقت کیا خوب سننے والے اور کیا خوب دیکھنے والے ہوں گے لیکن آج یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

38۔ دنیا میں ان کی بصارت و سماعت پر مفادات، خواہشات اور آرزوؤں کے تہ در تہ پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قیامت کے دن یہ تمام پردے ہٹ جائیں گے اور ہر چیز کماحقہ نظر آئے گی۔

وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡحَسۡرَۃِ اِذۡ قُضِیَ الۡاَمۡرُ ۘ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ وَّ ہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور (اے رسول) انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیے جب قطعی فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور یہ ایمان نہیں لاتے۔

39۔ حسرت کا دن کفار اور مشرکین کے لیے نہایت المناک ہو گا۔ انسان کو روز قیامت کی حسرت سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔

اِنَّا نَحۡنُ نَرِثُ الۡاَرۡضَ وَ مَنۡ عَلَیۡہَا وَ اِلَیۡنَا یُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ اور ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہوں گے پھر وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔