آیت 43
 

یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا﴿۴۳﴾

۴۳۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

تفسیر آیات

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم کے اس مقام پر فائز کیا تھا جس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ کی وحدانیت پر وہ یقین حاصل ہوگیا جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام چٹان کی طرح مضبوط اور دریا کی طرح بیکراں ہو گئے تھے۔ آپؑ کو اللہ نے مقام علم و یقین پر فائز کرنے کے لیے ملکوت کی سیر کرائی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس دعوت میں علم کو سند اور قابل اتباع قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اتباع عالم کا ہوتی ہے۔ جس کے پاس سب سے زیادہ علم ہو گا وہی قابل اتباع ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ اتباع عالم کی ہی ہوتی ہے: جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ ۔۔۔۔

۲۔ امت میں جس کے پاس سب سے زیادہ علم ہو گا اتباع اسی کی ہو گی: فَاتَّبِعۡنِیۡۤ ۔۔۔۔

۳۔ صراط مستقیم کی طرف ہدایت عالم کر سکتا ہے: اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ۔۔۔۔


آیت 43