آیت 50
 

وَ وَہَبۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِیًّا﴿٪۵۰﴾

۵۰۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلیٰ درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا ۔

تفسیر آیات

رَّحۡمَتِنَا: ابراہیم و آل ابراہیم (ع) کے لیے اللہ کی رحمت کا وصف تو خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہم نے ان کو ملک عظیم دیا ہے:

فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا ( ۴ نساء: ۵۴)

ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔

لِسَانَ صِدۡقٍ: عربی محاورہ میں لسان ستائش کے موقع پر استعمال کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے:

لسان الناس علیک لحسنۃ ۔

لوگوں کی ستائش تیرے حق میں بہتر ہے۔

مجمع البحرین میں لِسَانَ صِدۡقٍ کے معنی ثناء حسنا سے کیا ہے۔

اس سے زیادہ لسان صدق اور ثنائے جمیل کیا ہو سکتی ہے کہ تمام آسمانی ادیان آپ کو اپنے لیے سند سمجھتے ہیں اور اسلام میں تو حضرت خلیلؑ کے لیے ثنائے جمیل کا ایک اعلیٰ نمونہ یہ ہے کہ ہم جب اپنے رسول پر درود بھیجتے ہیں تو اس وقت ابراہیم اور آل ابراہیم کی عظمت کو سامنے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں:

اللّٰھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وآل ابراہیم ۔

اے اللہ درود بھیج محمد و آل محمد پر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود بھیجاہے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ احزاب آیت ۶۵۔

یہ در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت ہے کہ آپؑ نے یہ دعا کی:

وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ (۲۶ شعراء: ۸۴)

اور آنے والوں میں مجھے ذکر جمیل عطا فرما۔

انبیاء کی طرف سے ذکر خیر کی خواہش یا اپنی اولاد سے محبت کی خواہش ذاتی خواہشات کی بنیاد پر نہیں ہے۔ بلکہ جو جہاد راہ خدا میں کیا ہے اور اللہ کی شریعت کو انسانوں میں متعارف کرایا ہے اس کے لیے دوام کی خواہش ہے اور وہ اس صورت میں ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل آنے والی نسلوں کے لیے لسان صدق کا درجہ حاصل رہے۔

اہم نکات

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ادیان سماوی کے لیے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۲۔ اپنے لیے ذکر جمیل کی خواہش الٰہی قدروں کے دوام کی خواہش ہے۔


آیت 50