آیت 48
 

وَ اَعۡتَزِلُکُمۡ وَ مَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا۔

تفسیر آیات

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ راہ راست پر نہیں آئیں گے تو ان سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کیا، ان کے معبود سے تو پہلے ہی کنارہ کش تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان کی یہ پکار سود مند رہے گی۔ آداب بندگی ہے کہ عبادت بجا لا کر اپنی عبادت کو ہیچ سمجھے، قبولیت کی امید رکھے اور ہمیشہ خوف و رجا، بیم و امید کے درمیان رہے۔ صرف خوف نہیں ہونا چاہیے چونکہ یہ ناامیدی اور کفر کی علامت ہے اور صرف امید نہیں ہونی چاہیے چونکہ یہ خود پسندی ہے، بندگی نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ عمل کر کے قبولت کی امید میں رہنا چاہیے جیسا کہ گناہ کر کے عذاب کے خوف میں رہنا چاہیے۔


آیت 48