آیات 30 - 32
 

قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾

۳۱۔ اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے ۔

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔

تفسیر آیات

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی پیدائش کے مسئلے کو براہ راست نہیں چھیڑتے بلکہ اول تو گہوارے میں معجزانہ طور پر بات کرنا، پھر اللہ کی طرف سے کتاب و نبوت عطا ہونے کی گواہی سے ولادت کا مسئلہ ناقابل شک طریقہ سے حل ہو گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے معجزانہ کلام میں چند باتوں کی صراحت فرمائی:

۱۔ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ: سب سے پہلے عبودیت و بندگی کا اقرار کیا جو ایمان بخدا رکھنے والوں کے لیے بالعموم اور انبیاء علیہم السلام کے لیے بالخصوص سب سے اہم اور اولین بات ہے اور بالاخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے جو معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے بندہ خدا ہونے میں غلط فہمی کا امکان زیادہ تھا۔ چنانچہ دین توحید اسلام میں پہلے اپنے رسولؐ کی عبودیت کی گواہی دی جاتی ہے، بعد میں رسالت کی: اشہد ان محمداً عبدہ و رسولہ ۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

وکفانی عزا ان اکون لک عبداً ۔ ( شرح نہج البلاغۃ ۲۰: ۲۵۵)

میری عزت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔

۲۔ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ: اس نے مجھے کتاب دی ہے۔مستقبل میں کتاب دینا یقینی ہے اس لیے کہا گیا: اس نے مجھے کتاب دی ہے یا کتاب دینے کا عمل انجام پا چکا ہے۔دونوں باتیں ممکن ہیں لیکن آیت کا ظہور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طفولیت میں کتاب دے دی گئی ہے۔ چنانچہ بغوی معالم التنزیل میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

وقال الاکثرون اوتی الانجیل وہو صغیر طفل وکان یعقل عقل الرجال ۔

اکثر نے کہا ہے کہ عیسیٰ کو انجیل اس وقت دی گئی ہے جب آپ چھوٹے بچے تھے لیکن مردوں والی عقل رکھتے تھے۔

البحر المحیط میں لکھا ہے:

وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا کے ظہور سے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو طفولیت میں ہی نبی بنایا ہے اور ان کی عقل کو کامل کیا۔ پھر طفولیت میں ہی نبوت پر فائز کیا ہے۔ انس اور ابن عباس اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وقت کتاب عنایت فرمائی جب آپؑ شکم مادر میں تھے۔

۳۔ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا: اس نے مجھے نبی بنایا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں نبی بنانے کی خبر ہے یا اسی وقت گہوارے میں نبی تھے؟

یہ بات تاریخ انبیاء و اوصیاء میں انوکھی نہیں ہے کہ عالم طفولیت میں ہی ایک ہستی صاحب کتاب اور منصب نبوت پر فائز ہو جائے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

۴۔ وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا: البرکۃ کے معنی النماء الزیادۃ کے ہیں۔ اللہ نے مجھے خیر و برکت کا ذریعہ بنایاہے اس طرح کہ لوگوں کی تعلیم و تزکیہ کے ذریعہ خیر پھیلانے اور مریضوں کو شفا یابی کے ذریعے۔

۵۔ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ: نماز اور زکوٰۃ یعنی بندگی اور بندہ نوازی، تمام ادیان الٰہی کی تعلیمات میں ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔انبیاء علیہم السلام نے مہد سے لحد تک اپنی پوری زندگی ان دو چیزوں کو عام کرنے پر صرف فرمائی ہے۔

۶۔ وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ: مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایا۔ والدین پر نیکی کرنا انبیاء علیہم السلام کا اخلاق ہے۔ یہ ایک ایسی نیک خصلت ہے کہ اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی ایک فضیلت اور امتیاز ہے۔


آیات 30 - 32