قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا﴿۲۱﴾

۲۱۔ فرشتے نے کہا: اسی طرح ہو گا، آپ کے رب نے فرمایا: یہ تو میرے لیے آسان ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے نشانی قرار دیں اور ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ ہے۔

21۔ غیر مانوس طریقہ تولید سے ایک بچے کی معجزانہ ولادت میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اس طرف اشارہ ہے: اس میں ایک تو یہ کہ الٰہی قدرت کاملہ کی ایک نشانی ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کسی خاص طریقے کا محتاج نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس مولود کے ذریعے اللہ اپنی رحمت کا جلوہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ مولود، مریضوں کی شفایابی کے لیے محتاج معاشرے اور مجبور و مقہور انسانیت کے لیے رحمت الہی کا ایک مظہر ہو گا۔ یہ اللہ کا ایک اٹل فیصلہ تھا۔

فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور مریم اس بچے سے حاملہ ہوگئیں اور وہ اسے لے کر دور مقام پر چلی گئیں۔

فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا﴿۲۳﴾

۲۳۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں: اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔

23۔ ایک باعفت و باغیرت دوشیزہ کے ہاں بن شوہر بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا یہی حال ہونا چاہیے جس کا اظہار حضرت مریم (س) کر رہی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم (س) کو علم تھا کہ یہ بچہ اللہ کی طرف سے معجزانہ طور پر پیدا ہو رہا ہے تو انہیں گھبرانا نہیں چاہیے تھا بلکہ اللہ پر بھروسا کر کے مطمئن ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی روایت میں ملتا ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اس پریشانی کی وجہ بیان فرمائی ہے: لانہا لم ترفی فی قومھا رشیدا ذا فراسۃ ینزھہا عنا السوء ۔ (بحار الانوار 14: 226) یعنی کیونکہ مریم (س) سمجھتی تھیں کہ ان کی قوم میں کوئی فہم و فراست کا مالک شخص نہیں ہے جو مریم (س) کو اس بدنامی سے بچا لے۔

فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا﴿۲۴﴾

۲۴۔ فرشتے نے مریم کے پائین پا سے آواز دی: غم نہ کیجیے! آپ کے رب نے آپ کے قدموں میں ایک نہر جاری کی ہے۔

24۔ پائنتی سے مریم (س) کو پکارا۔ پکارنے والا کون تھا؟ اکثر کے نزدیک جبرئیل یا فرشتے تھے۔ بعض کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ اس پر قرینہ مِنْ تَحْتِہَآ (پائنتی سے) کو قرار دیتے ہیں کہ اس وقت حضرت مریم (س) کی پائنتی میں نومولود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اس مرحلے میں کوئی کلام کیا ہے۔

وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾

۲۵۔ اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔

25۔ کھجور کے تنے کو ہلانے کے حکم میں اس بات کی تصریح ہے کہ اگر کوئی عمل انسان خود انجام دے سکتا ہے تو اللہ اسے خود انسان پر چھوڑ دیتا ہے۔

فَکُلِیۡ وَ اشۡرَبِیۡ وَ قَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾

۲۶۔ پس آپ کھائیں اور پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہدیں: میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔

26۔ یہاں سے اصل پریشانی کے حل کا بیان شروع ہو گیا ہے کہ بچے کے بارے میں نہ آپ کو پریشانی ہو گی اور نہ بولنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ آپ چپ کا روزہ رکھ لیں، مسئلے کا حل ہمارے ذمے ہے۔ واضح رہے اس زمانے کی شریعت میں چپ کا روزہ رکھنے کا شرعی جواز تھا جبکہ اسلامی شریعت میں یہ حکم منسوخ ہے۔

فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا﴿۲۷﴾

۲۷۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں، لوگوں نے کہا: اے مریم! تو نے بہت غضب کی حرکت کی۔

27۔ توقع کے مطابق قوم کے افراد نے اس معاملے کو بہت بڑی فضیحت قرار دیا۔

یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۸﴾

۲۸۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔

28۔ حضرت مریم (س) ہارون کے خاندا ن سے تعلق رکھتی تھیں، اس لیے ممکن ہے اخت ہارون کہا گیا ہو۔

فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا﴿۲۹﴾

۲۹۔ پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارے میں ہے؟

29۔ حضرت مریم (س) کو یقین تھا کہ بچہ خود ماں کی طہارت کی گواہی دے گا۔ یہ یقین یا تو سابقہ تجربے سے آیا، اگر پائنتی سے بات کرنے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے یا فرشتوں کے کہنے پر یقین آیا ہو گا۔ یہ بات زیادہ قرین واقع نظر آتی ہے کہ جہاں چپ کا روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے وہاں اس بات کی یقین دہانی ہوئی ہو گی کہ بچہ خود گواہی دے گا۔

کچھ لوگ کَانَ کو ماضی بعید کے معنوں میں لے جا کر یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے۔ جبکہ كَانَ یہاں ثبت کے معنوں میں ہے جیسے آیت 18 میں اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا میں ہے۔

قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

30۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں پاکیزہ طور پر پیدا ہوا ہوں بلکہ اس سے کہیں بالاتر فرمایا کہ میں نبوت کے مقام پر فائز ہو کر آرہا ہوں اور مجھے کتاب عنایت ہوئی ہے۔