حضرت موسیٰ کا استاد


قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ جوان نے کہا: بھلا مجھے بتاؤ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے سمندر میں اپنی راہ بنائی ۔

63۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بتایا گیا تھاکہ وہ معلم دو دریاؤں کے سنگم پر ملیں گے، جہاں سے مچھلی دریا میں چلی جائے گی۔ اس بات کی تفسیر کہیں نہیں ملتی کہ وہ جوان اس حیرت انگیز واقعے کو کیسے بھول گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آتے ہیں اور اسی سنگم پر وہ بندہ ٔخدا سے ملتے ہیں۔

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

65۔ جس عبد خدا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تعلیم حاصل کرنا تھی، وہ اسلامی روایات کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاصر نبی تھے۔ بعض روایات کے مطابق آپ ابھی تک زندہ ہیں۔

اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا :جسے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔رحمت سے مراد قرآنی اصطلاح میں نبوت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا: وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ ۔ (ہود : 28)