مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَا خَلۡقَ اَنۡفُسِہِمۡ ۪ وَ مَا کُنۡتُ مُتَّخِذَ الۡمُضِلِّیۡنَ عَضُدًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کرایا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق کا اور میں کسی گمراہ کرنے والے کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں ہوں۔

51۔ مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ میں ہُمۡ کی ضمیر اگر ابلیس اور اس کی اولاد کی طرف جاتی ہے تو آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: ہم نے ابلیس اور اس کی اولاد کو کائنات کی خلقت کے وقت حاضر نہیں کیا تھا کہ ابلیس کا بھی تدبیر کائنات میں کوئی حصہ ہو، کیونکہ جب تخلیق کا مشاہدہ نہیں ہے تو ابلیس اور اس کی اولاد کو اس بارے میں علم نہیں ہے اور جب علم نہیں ہے تو علم کے بغیر تدبیر کیسے کر سکتے ہیں۔ علم کے بغیر شفاعت بھی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں شفاعت کا ذکر کیا ہے، غالباً وہاں علم کا بھی ذکر آیا ہے۔

یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا اللہ کو کسی کو بازو بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اللہ کائنات کے نظام کے لیے ذرائع استعمال فرماتا ہے، احتیاج کی بنیاد پر نہیں حکمت کی بنیاد پر۔ حضرت علی علیہ السلام سے جب کہا گیا کہ آپ علیہ السلام کی حکومت کی مصلحت اس میں ہے کہ فی الحال معاویہ کو معزول نہ کیا جائے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں ظلم و جور کے ذریعے عدل قائم نہیں کروں گا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

ایک نہایت قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اکثر یہ مسئلہ ہماری دینی زندگی میں پیش آتا ہے کہ ہم ایک کار خیر کے لیے دانستہ یا نادانستہ طور پر گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ثواب کے حصول کی راہ میں گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ایک مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ یا مجلس قائم کرنے کے سلسلے میں کسی مومن کی غیبت یا کسی کی اہانت کرتے ہیں یا کسی کا حق مارتے ہیں، اس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ ہم اس کار خیر کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے نہیں کر رہے تھے، ورنہ اس کار خیر کے ذریعے اللہ کو ناراض نہ کرتے۔ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ ۔

وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّوۡبِقًا﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور جس دن اللہ فرمائے گا: انہیں بلاؤ جنہیں تم نے میرا شریک ٹھہرایا تھا تو وہ انہیں بلائیں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔

وَ رَاَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ النَّارَ فَظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مُّوَاقِعُوۡہَا وَ لَمۡ یَجِدُوۡا عَنۡہَا مَصۡرِفًا﴿٪۵۳﴾

۵۳۔ اور مجرمین اس دن آتش جہنم کا مشاہدہ کریں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر مضمون کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو (ثابت ہوا ) ہے۔

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰی وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جب ان کے پاس ہدایت آ گئی تھی تو ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی طلب کرنے سے لوگوں کو کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جائے جو ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا یا ان کے سامنے عذاب آ جائے۔

55۔ یہ لوگ سابقہ امتوں کی روش پر چلتے ہیں۔ یعنی عذاب آنے تک ایمان نہیں لاتے۔ جبکہ عذاب آنے کے بعد کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ اس طرح یہ لوگ ایسے ایمان کے لیے آمادہ ہیں جو ان کے لیے مفید نہیں ہے۔ اس قسم کا ایمان تو فرعون بھی غرق ہوتے وقت لایا تھا۔

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ مَاۤ اُنۡذِرُوۡا ہُزُوًا﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور تنبیہ کریں اور کفار باطل باتوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ اس طرح حق بات کو مسترد کر دیں، انہوں نے میری آیات کو اور ان باتوں کو جن کے ذریعے انہیں تنبیہ کی گئی تھی مذاق بنا لیا۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقینا پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں) اور اب اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔

57۔ وہ اپنے جرائم کی وجہ سے ایمان کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں جس کی بنا پر اللہ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ جن کو اللہ اپنی رحمت سے محروم کرے ان میں پھر شنوائی رہتی ہے نہ سمجھنے کے لیے ان کی عقل و فکر کام کرتی ہے۔

وَ رَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ لَوۡ یُؤَاخِذُہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَہُمُ الۡعَذَابَ ؕ بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور آپ کا رب بڑا بخشنے والا، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ ان کی حرکات پر انہیں گرفت میں لینا چاہتا تو انہیں جلد ہی عذاب دے دیتا لیکن ان کے لیے وعدے کا وقت مقرر ہے، وہ (اس سے بچنے کے لیے) اس کے سوا کوئی پناہ گاہ ہرگز نہیں پائیں گے۔

58۔یہ اللہ کی غفاریت اور رحمت ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا بلکہ باز آنے کے لیے انھیں مواقع فراہم کرتا ہے۔

وَ تِلۡکَ الۡقُرٰۤی اَہۡلَکۡنٰہُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَ جَعَلۡنَا لِمَہۡلِکِہِمۡ مَّوۡعِدًا﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ اور ان بستیوں کو ہم نے اس وقت ہلاکت میں ڈال دیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔

59۔ مجرموں کو مہلت دینا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تمام امتوں کے بارے میں خدا کی دائمی روش ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

60۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرئی اور ظاہری نظام کے پس پردہ ایک نامرئی اور باطنی نظام بھی موجود ہے۔ ظاہری اور مرئی نظام اس باطنی نظام کے تابع ہے۔ ظاہر بین لوگ جو صرف محسوسات پر ایمان رکھتے ہیں اس ظاہری نظام کی ناہمواری کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس نظام کے پیچھے کوئی شعور کام نہیں کر رہا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باطنی اور نامرئی نظام کی ایک جھلک دکھائی جائے۔

اسلامی روایت کے مطابق یہ واقعہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولوالعزم نبی کو اس باطنی نظام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس ظاہری دنیا میں پیش آنے والے حادثات کے پیچھے کون سی حکمتیں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معراج میں عالم ملکوت کی سیر کرائی تاکہ اللہ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کریں۔ یعنی ان راز ہائے قدرت سے آگاہی حاصل کریں جو اس عالم ناسوت کے پردے کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اس پر کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ ممکن ہے مدین میں زندگی کے دوران پیش آیا ہواور ممکن ہے کہ مصر میں پیش آیا ہو۔