آیات 61 - 65
 

فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا﴿۶۱﴾

۶۱۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا ۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا﴿۶۲﴾

۶۲۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔

قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ جوان نے کہا: بھلا مجھے بتاؤ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے سمندر میں اپنی راہ بنائی ۔

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

تشریح کلمات

سَرَبًا:

( س ر ب ) السَّرْبُ کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں۔

نَصَبًا:

( ن ص ب ) اَلنَّصْبُ کے معنی مشقت کے ہیں۔

غَدَآءَ:

( غ د و ) کھانا جو دن کے ابتدائی حصے میں کھایا جائے۔

اَرَءَیۡتَ:

یہ ترکیب بمعنی اخبرنی نہیں ہے۔ ابو حیان نے دو شرائط کا ذکر کیا ہے: پہلی شرط یہ ہے کہ جس چیز کی خبر دینا ہے وہ اسم اس کے ساتھ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے بعد آنے والا جملہ استفہامیہ ہو۔ یہاں دونوں شرائط نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

نَسِیَا حُوۡتَہُمَا: دونوں اپنی مچھلی بھول گئے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خادم دونوں بھول گئے۔ خادم کا بھولنا واضح ہے کہ وہ بھول گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو مچھلی کے پانی میں جانے کا حال بتا دے۔ جیساکہ خادم خود کہتا ہے مجھے شیطان نے بھلا دیا کہ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ میں اسے یاد کروں لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اس بھول میں کیسے شریک ہیں؟

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے: اگرچہ بھولا صرف خادم ہے لیکن محاورۃً نسبت دونوں کی طرف دی گئی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا:

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۳۰)

اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے۔

ظاہر ہے کہ رسول تو صرف انس میں آئے لیکن خطاب جن و انس دونوں سے ہے کہ تم میں سے رسول آئے۔

چنانچہ سیاق آیت میں اس بات کا قرینہ موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بھول میں شریک نہیں تھے۔ پہلا قرینہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا: اٰتِنَا غَدَآءَنَا کھانا حاضر کرو تو خادم نے کہا: فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ میں مچھلی بھول گیا۔ اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولنے والا صرف خادم تھا۔ دوسرا قرینہ یہ ہے جب خادم نے کہا: مچھلی عجیب طریقہ سے پانی میں چلی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خادم کے کہنے پر پتہ چلا مچھلی پانی میں چلی گئی ہے۔ اگر بھول گئے ہوتے تو یہ تعبیر اختیار نہ کرتے۔ چونکہ بھولنا علم کے بعد ہوتا ہے جب کہ سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خادم کے کہنے پر علم ہوا کہ مچھلی ہمراہ نہیں ہے۔ بہت سے دیگر مفتیان کرام کی طرح تھانوی نے بھی فرمایا: شیطان کے اثر سے وسوسہ و نسیان کا پیش آنا ولایت بلکہ نبوت کے منافی نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر دریابادی صفحہ ۶۱۵۔

فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا: سرب کے لغوی معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں۔ کہتے ہیں سرب الدمع آنسو رواں ہو گیا۔ سانپ کے اپنے بل میں اتر جانے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔

اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ: اپنا راستہ بنا لیا سے بظاہر ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ مچھلی زندہ ہو گئی اور ارادۃً پانی میں چلی گئی۔ اس کے باوجود بزرگ مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ آیت سے مچھلی کے زندہ ہونے پر دلیل نہیں ملتی۔ ممکن ہے کہ مچھلی لب دریا کسی چٹان پر رکھ دی ہو اور وہ دریا میں گر گئی ہو یا سمندر کی لہروں کی زد میں آگئی ہو۔ یہ احتمال اس لیے بعید ہے کہ اگلی آیت میں بتایا: مچھلی نے عجیب طریقے سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ ظاہر ہے کہ مچھلی کا چٹان سے پانی میں گر جانا یا لہروں کی زد میں آنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔

اٰتِنَا غَدَآءَنَا: ہمارا ناشتہ لاؤ۔ غَدَآءَ صبح کے کھانے اور عشاء شام کے کھانے کو کہتے ہیں۔ سیاق کلام سے واضح ہے کہ غَدَآءَ (کھانے) سے مراد مچھلی ہے۔ کیونکہ خادم نے جواب میں کہا: مچھلی (کھانا) تو میں چٹان پر بھول آیا اور اس نے عجیب طریقے سے دریا میں اپنی راہ بنائی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مچھلی کھانے کے لیے تیار بھنی ہوئی تھی۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ مچھلی نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا اور میں آپ کو بتانا بھول گیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلامنے فرمایا: ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ مچھلی کا واقعہ ایک ایسی علامت تھی جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے معلم کا پتہ معلوم ہونا تھا۔ اس میں ممکن ہے کہ یہ علامت مچھلی کا زندہ ہونا ہو۔ چنانچہ خادم کی بات سننے کے بعد اسی جگہ واپس ہو گئے اور فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ چنانچہ جس معلم کی تلاش تھی وہ اسی جگہ پر مل گئے۔

اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا: جسے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔ رحمت سے مراد قرآنی اصطلاح میں نبوت ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا:

وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۲۸)

اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ وہ معلم ایک نبی تھے۔

روایات کے مطابق یہ معلم حضرت خضرؑ تھے اور یہ بات رد کر دی گئی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے تھے۔

وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا: اسے ہم نے اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔ اس پورے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم سے مراد علم تاویل ہے۔ اس دنیا میں وقوع پزیر ہونے والے ہر حادثہ اور واقعہ کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے اس کا علم ہے۔

اہم نکات

۱۔ استاد کی تلاش میں نکلنا انبیاء کی سیرت ہے۔

۲۔ زاد راہ ہمراہ رکھنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔

۳۔ خادم ساتھ رکھنا تقویٰ اور ورع کے منافی نہیں ہے۔


آیات 61 - 65