آیت 57
 

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقینا پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں) اور اب اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ: جو شخص مشفقانہ نصیحتوں سے منہ پھیر لیتا ہے اور اپنے جرائم کا احساس بھی نہیں کرتا وہ مردہ ضمیر ہے۔ اس کا دل کسی بات کے سمجھنے کے قابل نہیں رہتا، نہ اس کا ضمیر کسی گناہ کا احساس کرتا ہے۔

۲۔ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً: ہم نے اس سے پہلے کئی بار اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ اللہ کی طرف سے دلوں پر مہر لگانے اور گمراہی میں ڈالنے کا کیا مطلب ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے ہدایت کے اسباب فراہم کرنے کے بعد ایک شخص گمراہی پر قائم رہتا ہے تو اللہ اس سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ ظاہر ہے اللہ کے بعد کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ نتیجتاً وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی: اگر اے رسول! آپ ان کو ایمان کی دعوت دیں گے تو وہ کسی صورت بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اس وقت دو صورتیں سامنے آتی ہیں: یا تو انہیں ایمان لانے پر مجبور کریں یا اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ ایمان لانے پر جبر کرنا صحیح نہیں ہے تو دوسری صورت باقی رہتی ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

اہم نکات

۱۔ ضمیر زندہ رکھنے کے لیے اللہ کی نصیحتوں پر توجہ دینی اور اپنے گناہوں پر نادم رہنا چاہیے۔

۲۔ نصیحت مسترد کرنے اور گناہ کا احساس نہ کرنے سے انسان ناقابل ہدایت ہو جاتا ہے: فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا ۔۔۔۔


آیت 57