آیت 60
 

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

تشریح کلمات

حُقُبًا:

( ح ق ب ) اس کے معنی زمانہ کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے ایک حقب اسّی (۸۰) سال ہے۔

لِفَتٰىہُ:

( ف ت ی ) جواں سال کو کہتے ہیں اور خادم کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ روایت کے مطابق یہ جوان یوشع بن نون ہیں جو بعد میں خود بھی نبوت کے مقام پر فائز ہوئے۔

شان نزول: مجمع البیان میں آیا ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کہف کا واقعہ از روئے قرآن قریش سے بیان کیا تو انہوں نے آپؐ سے کہا: اس عالم کا بھی ہمیں بتائیں جس کی پیروی کرنے کا حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا تھا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

تفسیر آیات

مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ: دو دریاؤں کا سنگم۔ ہمارے ہاتھ میں کوئی ایسے شواہد نہیں ہیں کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کس دور میں پیش آیا تھا۔ مصر یا وادی سینا میں۔ اگر مصر میں پیش آیا ہے تو یہ سنگم دریائے نیل کی دونوں شاخوں کے ملنے کی جگہ ہو سکتی ہے۔ اگر یہ واقعہ وادی سینا میں پیش آیا ہے تو ممکن ہے یہ جگہ خلیج عقبہ اور خلیج سویز یا بحر ابیض اور بحر ارزق کے اتصال کی جگہ ہو۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سنگم تک جانے کا اشارہ ملا ہوا ہے اور جملہ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا خواہ برسوں چلتا رہوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہر قیمت پر اس جگہ پہنچنا تھا۔ اس کی وجہ ہم آیندہ بتائیں گے۔


آیت 60