آیت 55
 

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰی وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جب ان کے پاس ہدایت آ گئی تھی تو ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی طلب کرنے سے لوگوں کو کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جائے جو ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا یا ان کے سامنے عذاب آ جائے۔

تفسیر آیات

یہ لوگ سابقہ امتوں کی روش پر چلتے ہیں۔ عذاب آنے تک ایمان نہیں لاتے، جب کہ عذاب آنے کے بعد کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔

فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا ۔۔۔۔ (۴۰ مومن: ۸۵)

لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں رہے گا۔۔۔۔

اس قسم کا ایمان فرعون بھی غرق ہوتے وقت لایا تھا۔ دوسرے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کے مشاہدے کے بعد ایمان و توجہ سود مند نہیں ہے کیونکہ اللہ کو وہ ایمان قبول ہے جو قلب و شعور سے عاشقانہ اور خود مختارانہ طور پر لایا جائے۔ عذاب کا سامنا کرنے کے بعد کا ایمان قلب و شعور کا ایمان نہیں ہے۔

ثانیاً وہ ایمان سود مند ہے جس کے کردار پر اثرات ہوں۔ عذاب سامنے آنے کے بعد کا ایمان کسی کردار کے لیے محرک نہیں بن سکتا کیونکہ عذاب کے سامنے آنے کے بعد تو کسی عمل و کردار کی مہلت ختم ہو چکی ہو گی۔

یہاں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کا وہ دعویٰ درست نہیں ہے جس سے اس کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔ بغیر کسی کردار کے صرف ایمان کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اہم نکات

۱۔ مہلت ختم ہونے کے بعد کا ایمان مفید نہیں ہے۔

۲۔ وہ ایمان، ایمان نہیں ہے جس کا کسی کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔


آیت 55