وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

60۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرئی اور ظاہری نظام کے پس پردہ ایک نامرئی اور باطنی نظام بھی موجود ہے۔ ظاہری اور مرئی نظام اس باطنی نظام کے تابع ہے۔ ظاہر بین لوگ جو صرف محسوسات پر ایمان رکھتے ہیں اس ظاہری نظام کی ناہمواری کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس نظام کے پیچھے کوئی شعور کام نہیں کر رہا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باطنی اور نامرئی نظام کی ایک جھلک دکھائی جائے۔

اسلامی روایت کے مطابق یہ واقعہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولوالعزم نبی کو اس باطنی نظام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس ظاہری دنیا میں پیش آنے والے حادثات کے پیچھے کون سی حکمتیں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کو معراج میں عالم ملکوت کی سیر کرائی تاکہ اللہ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کریں۔ یعنی ان راز ہائے قدرت سے آگاہی حاصل کریں جو اس عالم ناسوت کے پردے کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اس پر کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ ممکن ہے مدین میں زندگی کے دوران پیش آیا ہواور ممکن ہے کہ مصر میں پیش آیا ہو۔