قُلۡ لِّعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خِلٰلٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ میرے ایمان والے بندوں سے کہ دیجئے:نماز قائم کریں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کریں، اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ سودا ہو گا اور نہ دوستی کام آئے گی۔

31۔ عبادی: یہ تعبیر کس قدر شیریں اور کس قدر اللہ نے اپنے بندوں کو عزت و شرف سے نوازا ہے۔ کفار اور مشرکین کو اپنی درگاہ سے دھتکارنے کے بعد رحمت و شفقت کے لہجے میں اپنے مومن بندوں کی طرف کلام کا رخ فرمایا ہے: میرے مومن بندوں سے کہ دیجیے کہ وہ نماز قائم کریں تاکہ معراج مومن کی منزل کو پہنچ جائیں اور اللہ کی عطا کردہ روزی کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ پوشیدہ طور پر خرچ کریں، جہاں لینے والوں کے وقار کے تحفظ کا مسئلہ ہو، محتاجوں کی انسانی کرامت اور دینے والوں کے اخلاص عمل کو ریاکاری سے بچانے کا مسئلہ ہو۔ علانیہ طور پر خرچ کریں، جہاں انفاق فی سبیل اللہ کے عمل کو نمونہ عمل بنانا اور معاشرے میں اس سوچ کو عام کرنا مقصود ہو۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الۡفُلۡکَ لِتَجۡرِیَ فِی الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِہٖ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الۡاَنۡہٰرَ ﴿ۚ۳۲﴾

۳۲۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری روزی کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور دریاؤں کو بھی تمہارے لیے مسخر کیا۔

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ﴿ۚ۳۳﴾

۳۳۔ اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمہارے لیے مسخر بنایا۔

وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

34۔ ہر وہ چیز تمہیں دے دی گئی جس کا تم نے سوال کیا۔ یہ سوال ہماری فطرت کی طرف سے تھا یا انسانی ارتقاء اور زندگی کی بقا کے تقاضوں کی طرف سے؟ ہماری ضرورتوں کی طرف سے تھا یا ہماری خواہشات کی طرف سے؟ بہرحال اللہ تعالیٰ نے صرف ضرورت کی حد تک نعمتیں عنایت نہیں فرمائیں۔ کیونکہ ضرورت تو صرف دانہ گندم یا جو سے پوری ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود مختلف دانوں، طرح طرح کے میووں اور سینکڑوں غذائی اشیاء کی فراہمی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے ہر وہ نعمت عطا کی ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ کی غیر محدود نعمتوں کو محدود انسان شمار نہیں کر سکتا، کیونکہ انسان کے لیے ان نعمتوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے اور وہ ان کا شمار نہیں کر سکتا بلکہ وہ ان نعمتوں سے غفلت برتتا ہے اور ان پر توجہ ہی نہیں ہوتی۔ سچ مچ انسان بڑاہی نا انصاف اور ناشکرا ہے۔

رہی زبانی سوال کی بات تو اللہ کی درگاہ سے کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ جو دعائیں بظاہر قبول نہیں ہوتیں اس کی چند ایک وجوہات ہیں: ٭ وہ دعا سرے سے دعا ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف زبان ہلائی جاتی ہے۔ ٭دعا کا قبول ہونا سائل کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ٭ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا ہو جو قبول دعا کے لیے رکاوٹ ہیں: و اغفرلی الذنوب التی تحبس الدّعاء ۔ (دعائے کمیل)

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ ﴿ؕ۳۵﴾

۳۵۔ اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ابراہیم نے دعا کی: میرے رب! اس شہر کو پر امن بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔

رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضۡلَلۡنَ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

۳۶۔ میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو یقینا بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔

37۔ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کی جب آپ علیہ السلام نے بیت اللہ تعمیر فرمایا تھا، یعنی اپنی زندگی کے آخری حصے میں۔ چونکہ حضرت اسماعیل و اسحاق، آپ علیہ السلام کے عالم پیری میں پیدا ہوئے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اور بیت اللہ کی تعمیر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جوانی کے وقت عمل میں آئی۔

لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ : کیا نماز قائم کرنے کے لیے بے آب و گیاہ خشک بیابان کی ضرورت تھی؟ حضرت علی علیہ السلام اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں: وَلَکِنَّ اللّٰہَ عَزَّ و جَلّ یَخْتَبِرُ عَبِیْدَہُ بَاَنْوَاعِ الشَّدَائِد ۔ (اصول الکافی 4: 198)اللہ اپنے بندوں کو مختلف اقسام کی سختیوں کے ذریعے آزماتا ہے۔

فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ : لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ دینی قیادت کے لیے ہر دلعزیزی ہی بنیاد ہے۔ چونکہ مذہبی قیادت کی حکومت گردنوں پر نہیں دلوں پر ہوتی ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے عامہ کو دینی معاشرے میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔

رَبَّنَاۤ اِنَّکَ تَعۡلَمُ مَا نُخۡفِیۡ وَ مَا نُعۡلِنُ ؕ وَ مَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ ہمارے رب ! جو کچھ ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تو اسے جانتا ہے، اللہ سے کوئی چیز نہ تو زمین میں چھپ سکتی ہے اور نہ آسمان میں۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عنایت کیے، میرا رب تو یقینا دعاؤں کا سننے والا ہے۔

39۔ توریت کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت حضرت ابرہیم علیہ السلام 84 سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ کی عمر 100 سال تھی۔ پیرانہ سالی میں اولاد نرینہ بڑی نعمت ہے اور خصوصاً جب وہ دعا اور تمناؤں سے ملی ہو۔

اقامہ صلوٰۃ یعنی معاشرے میں نماز کا رواج قائم کرنا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کا فرض اولین بھی ہے اور ان کی دعا و تمنا بھی۔ چنانچہ فرزند خلیل حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں ہم کہتے ہیں اشہد انک قد اقمت الصلوۃ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی۔

رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔