آیت 31
 

قُلۡ لِّعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خِلٰلٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ میرے ایمان والے بندوں سے کہ دیجئے:نماز قائم کریں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کریں، اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ سودا ہو گا اور نہ دوستی کام آئے گی۔

تفسیر آیات

۱۔قُلۡ لِّعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: عبادی، میرے بندے۔ یہ تعبیر کس قدر شیرین ہے اور کس قدر اللہ نے اپنے بندوں کو عزت و شرف سے نوازا ہے۔ کافروں اور مشرکوں کو اپنی درگاہ سے دھتکارنے کے بعد رحمت و شفقت کے لہجے میں اپنے مؤمن بندوں کی طرف کلام کا رخ فرماتا ہے:

۲۔ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ: میرے مؤمن بندوں سے کہدیجیے کہ وہ نماز قائم کریں تاکہ معراج مومن کی منزل کو پہنچ جائیں اور اللہ کی عطا کردہ روزی اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔

پوشیدہ طور پر خرچ کریں جس سے لینے والوں کے وقار کو تحفظ ملتا ہے، محتاجوں کی انسانی کرامت کو بچایا جا سکتا ہے اور دینے والوں کے اخلاص عمل کو ریاکاری سے بھی بچانے کا موقع ملتا ہے۔

علانیہ طور پر خرچ کریں ، جہاں انفاق فی سبیل اللہ کے عمل کو نمونہ عمل بنانا اور معاشرے میں اس سوچ کو عام کرنا مقصود ہو۔ اگر لوگ اسے بخیل سمجھتے ہیں تو لوگ اس کی غیبت نہ کریں۔

۳۔ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ: اس دن کے آنے سے پہلے جہاں نماز اور انفاق کام آئے گا۔ اگر نماز وانفاق نہیں ہے تو کسی سے معاملہ کر کے اس دن کو ٹال سکتے ہیں نہ ہی کسی دوست کی دوستی کام آ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ اگر مؤمن نمازی ہے اور انفاق کرتا ہے تو شفاعت اور دوستی فائدہ دیتی ہے:

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

اہم نکات

۱۔ مومن نماز کے ذریعے خالق سے اور انفاق کے ذریعے مخلوق سے مربوط رہتا ہے۔

۲۔ اقتصادی اقدار سے زیادہ اہم، انسانی قدریں ہیں : مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا ۔۔۔۔


آیت 31