دعائے حضرت ابراہیم ؑ


رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔

37۔ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کی جب آپ علیہ السلام نے بیت اللہ تعمیر فرمایا تھا، یعنی اپنی زندگی کے آخری حصے میں۔ چونکہ حضرت اسماعیل و اسحاق، آپ علیہ السلام کے عالم پیری میں پیدا ہوئے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اور بیت اللہ کی تعمیر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جوانی کے وقت عمل میں آئی۔

لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ : کیا نماز قائم کرنے کے لیے بے آب و گیاہ خشک بیابان کی ضرورت تھی؟ حضرت علی علیہ السلام اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں: وَلَکِنَّ اللّٰہَ عَزَّ و جَلّ یَخْتَبِرُ عَبِیْدَہُ بَاَنْوَاعِ الشَّدَائِد ۔ (اصول الکافی 4: 198)اللہ اپنے بندوں کو مختلف اقسام کی سختیوں کے ذریعے آزماتا ہے۔

فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ : لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ دینی قیادت کے لیے ہر دلعزیزی ہی بنیاد ہے۔ چونکہ مذہبی قیادت کی حکومت گردنوں پر نہیں دلوں پر ہوتی ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے عامہ کو دینی معاشرے میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔

رَبَّنَاۤ اِنَّکَ تَعۡلَمُ مَا نُخۡفِیۡ وَ مَا نُعۡلِنُ ؕ وَ مَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ ہمارے رب ! جو کچھ ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تو اسے جانتا ہے، اللہ سے کوئی چیز نہ تو زمین میں چھپ سکتی ہے اور نہ آسمان میں۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عنایت کیے، میرا رب تو یقینا دعاؤں کا سننے والا ہے۔

39۔ توریت کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت حضرت ابرہیم علیہ السلام 84 سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ کی عمر 100 سال تھی۔ پیرانہ سالی میں اولاد نرینہ بڑی نعمت ہے اور خصوصاً جب وہ دعا اور تمناؤں سے ملی ہو۔

اقامہ صلوٰۃ یعنی معاشرے میں نماز کا رواج قائم کرنا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کا فرض اولین بھی ہے اور ان کی دعا و تمنا بھی۔ چنانچہ فرزند خلیل حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں ہم کہتے ہیں اشہد انک قد اقمت الصلوۃ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی۔

رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔