رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔

41۔اس آیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین کا ایمان قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ دعا حضرت اسماعیل و اسحاق علیہما السلام کی ولادت کے بعد عالم پیری میں کی تھی۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین یقینا وفات پا چکے تھے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آزر کے لیے اب کا لفظ استعمال ہوا ہے جو حقیقی باپ اور چچا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ والد صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں والدین کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے باوجود لوگ اب سے مراد حقیقی باپ لیتے ہیں اور والد سے مراد آدم یا نوح علیہما السلام لیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: یہاں والدی نہیں ولدی ہے، یعنی میرے دو بیٹوں کو بخش دے۔ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ ۔

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعۡمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمۡ لِیَوۡمٍ تَشۡخَصُ فِیۡہِ الۡاَبۡصَارُ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اور ظالم جو کچھ کر رہے ہیں آپ اس سے اللہ کو غافل تصور نہ کریں، اللہ نے بیشک انہیں اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

42۔ ظالم اور جا بر لوگوں کو دنیا میں ہر قسم کے ظلم و بربریت کرنے اور ناز و نعم میں زندگی گزارنے کی جو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، اس سے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ظالموں کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے؟ جواب میں فرمایا: اللہ ان کے ظلم سے غافل نہیں ہے بلکہ اس نے ان کو قیامت کے دن سخت ترین عذاب کے لیے مہلت دے رکھی ہے۔

مُہۡطِعِیۡنَ مُقۡنِعِیۡ رُءُوۡسِہِمۡ لَا یَرۡتَدُّ اِلَیۡہِمۡ طَرۡفُہُمۡ ۚ وَ اَفۡـِٕدَتُہُمۡ ہَوَآءٌ ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔ وہ سر اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے، ان کی نگاہیں خود ان کی طرف بھی لوٹ نہیں رہی ہوں گی اور ان کے دل (خوف کی وجہ) کھوکھلے ہو چکے ہوں گے۔

وَ اَنۡذِرِ النَّاسَ یَوۡمَ یَاۡتِیۡہِمُ الۡعَذَابُ فَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رَبَّنَاۤ اَخِّرۡنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ نُّجِبۡ دَعۡوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ ؕ اَوَ لَمۡ تَکُوۡنُوۡۤا اَقۡسَمۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ مَا لَکُمۡ مِّنۡ زَوَالٍ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور لوگوں کو اس دن کے بارے میں تنبیہ کیجیے جس دن ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے: ہمارے رب ہمیں تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل دے دے اب ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی اتباع کریں گے، (انہیں جواب ملے گا) کیا اس سے پہلے تم قسمیں نہیں کھاتے تھے کہ تمہارے لیے کسی قسم کا زوال و فنا نہیں ہے؟

44۔ یہاں روزِ عذاب سے مراد عذاب دنیا ہے جیسے قوم عاد و ثمود پر نازل ہوا۔ اس پر اَخِّرۡنَاۤ یعنی تاخیر کرو، کچھ مدت کے لیے ڈھیل دے دو، قرینہ ہے۔ اگر قیامت کے روز کے لیے ہوتا تو تاخیر کا لفظ استعمال نہ ہوتا، بلکہ اس کے لیے تو رَدْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

وَّ سَکَنۡتُمۡ فِیۡ مَسٰکِنِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ تَبَیَّنَ لَکُمۡ کَیۡفَ فَعَلۡنَا بِہِمۡ وَ ضَرَبۡنَا لَکُمُ الۡاَمۡثَالَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ حالانکہ تم ان لوگوں کے گھروں میں آباد تھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے اور تم پر یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا اور تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کی تھیں۔

45۔ تم انہی ظالموں کی جگہ رہائش پذیر ہو۔ ان کی تباہی کے بعد ان کی جگہ تم آباد ہو اور اس بات کا بھی تمہیں علم ہو گیا کہ ظالم لوگ کیسے ہلاک و نابود ہو گئے اور ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا اور ہم نے ان ہلاکتوں اور ان ظالموں کے انجام کی مثالیں دے کر تمہیں بھی برے انجام سے خبردار کیا مگر تم نے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔

وَ قَدۡ مَکَرُوۡا مَکۡرَہُمۡ وَ عِنۡدَ اللّٰہِ مَکۡرُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مَکۡرُہُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور انہوں نے اپنی مکاریاں کیں اور ان کی مکاریاں اللہ کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی مکاریاں ایسی تھیں کہ جن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔

46۔ دعوت انبیاء علیہ السلام کے خلاف ان کی مکاریاں کچھ کم نہ تھیں، لیکن اللہ ان کی مکاریوں سے آگاہ تھا۔ اس لیے ان کی ساری مکاریاں خواہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں اکارت جاتی ہیں، خواہ ان کی مکاریوں میں پہاڑوں کو ہٹانے کی طاقت ہو تو بھی یہ اللہ کے سامنے ہیں۔ ان کی یہ ساری مکاریاں بے اثر رہی ہیں۔

فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ مُخۡلِفَ وَعۡدِہٖ رُسُلَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ ﴿ؕ۴۷﴾

۴۷۔ پس آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا، اللہ یقینا بڑا غالب آنے والا، انتقام لینے والا ہے۔

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ﴿۴۸﴾

۴۸۔ یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔

وَ تَـرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ مُّقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ ﴿ۚ۴۹﴾

۴۹۔ اس دن آپ مجرموں کو ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھیں گے۔

سَرَابِیۡلُہُمۡ مِّنۡ قَطِرَانٍ وَّ تَغۡشٰی وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔ ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ہو گی۔

48 تا50۔ یعنی قیامت کے دن اس زمین و آسمان کا موجودہ نظام دگرگوں ہو جائے گا اور موجودہ نظام عالم بدل جائے گا۔ چنانچہ ایک جرثومہ جس نظام زندگی کے تحت زندہ رہتا ہے، وہ جب بدل جاتا ہے اور عالم نطفہ میں داخل ہوتا ہے تو زندگی کے طور و طریقے اور لوازم و قوانین بدل جاتے ہیں۔ نطفہ جب جنین بنتا ہے نیز جب جنین شکم مادر سے اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو زندگی کے لوازم و قوانین بدل جاتے ہیں۔ عالم آخرت کا نظام اگرچہ طبیعی ہے، مگر وہ مختلف نظام طبیعت ہے۔ اس نظام میں یہ زمین کسی اور زمین میں بدل جائے گی۔ اس نظام طبیعت میں مجرم لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے جسم پر گندھک یا تارکول جیسا آتش گیر مادہ بطور لباس ہو گا اور ان کے جسم پر آگ چھائی ہوئی ہو گی۔ اس کے باوجود وہ زندہ رہیں گے۔

لِیَجۡزِیَ اللّٰہُ کُلَّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ تاکہ اللہ ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا دے، اللہ یقینا بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ وَ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی تنبیہ کی جائے اور وہ جان لیں کہ معبود تو بس وہ ایک ہی ہے نیز عقل والے نصیحت حاصل کریں۔

52۔ یہ قرآن پوری انسانیت کے لیے ایک پیغام رکھتا ہے۔ یہ پیغام تین چیزوں پر مشتمل ہے: ٭لوگوں کی تنبیہ۔ خطرات میں گھرے ہوئے اس انسان کے لیے سب سے زیادہ ضرورت تنبیہ کی ہے۔ ٭ توحید یعنی ایک خدا کی پرستش کرنا، ایک خدا کی حاکمیت قبول کرنا اور ایک ہی قانون ساز کو تسلیم کرنا۔ ٭عقل سلیم کو سوچنے اور حقائق کا کھوج لگانے کی دعوت۔