آیت 37
 

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ: میں لفظ مِنْ تبعیضی ہے۔ اس سے ’’ بعض اولاد‘‘ سمجھا جاتا ہے جس سے مراد حضرت اسماعیل (ع) اور ان کی اولاد ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل (ع) اور ان کی اولاد کو یہاں بسایا تھا۔

۲۔ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ: بیت سے مراد کعبہ ہے جو اس وقت بَیۡت یعنی گھر کی شکل میں آ گیا تھا۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری حصے میں بیت اللہ کی تعمیر کے وقت مانگی ہے کیونکہ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام آپ (ع) کے عالم پیری میں پیدا ہوئے ہیں:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۳۹)

ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحق عنایت کیے۔۔۔

اور بیت اللہ کی تعمیر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جوانی کے وقت عمل میں آئی:

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۲۷)

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔۔۔۔

۳۔ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ: یہ وادی پتھریلی اور ریتلی ہونے کی وجہ سے آج تک قابل زراعت نہیں ہے۔ یہاں اپنی اولاد کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس لیے بسایا کہ وہ نماز قائم کریں۔ کیا نماز قائم کرنے کے لیے بے آب و گیاہ خشک بیابان کی ضرورت تھی؟ حضرت علی علیہ السلام اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ اس گھر کو سخت چٹانوں اور گہری ریت کے درمیان کیوں قرار دیا؟

وَلَکِنَّ اللّٰہَ یَخْتَبِرُ عِبَادَہُ بِاَنْوَاعِ الشَّدَائِدِ وَ یَتَعَبَّدَھَمْ بِاَنْوَاعِ الْمُجَاہِدِ وَ یَبْتَلِیْھِمْ بَضُرُوبِ المَکَارِہِ، اِخْراجاً لِلتَّکَبُّرِ مِنْ قُلُوبِہِمْ وَ اِسْکَاناً لِلتَّذَلُّلِ فِی نُفُوسِہِم ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ ص ۲۹۲۔ خطبہ قاصعہ)

لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے سے بجا لائی گئی ہو اور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تکبر کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے۔۔۔۔

۴۔ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ: لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل بنا دے۔ فاجعل میں فا برائے تفریع ہے۔جیسے ہم اردو میں ایک مطلب بیان کرنے کے بعد نتیجے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تو ’’ لہٰذا ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں : میں نے اپنی ذریت کو تیرے گھر کے پاس بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا صلہ کے طور پر لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا دے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ سے لوگوں کے دلوں میں اپنی اولاد کی محبت کی درخواست کر رہے ہیں۔

اس جگہ ہم آپ کے لیے تفہیم القرآن کی عین عبارت لکھ دیتے ہیں جو انہوں نے آیۃ المودۃ کے اہل بیت اطہار (ع) کی شان میں ہونے کو بڑی شدّومد سے رد کرتے ہوئے لکھی ہے:

تیسری بات جو ان سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ (تفہیم القرآن ۴: ۵۰۳)

صاحب تفہیم القرآن کا ذوق اس قدر سلیم ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل (ع) کا ذوق سقیم معلوم ہوتا ہے جو اپنے کارنامے کے صلے میں اولاد کی محبت مانگتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کی ہر دلعزیزی چاہتے تھے: فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ ۔۔۔۔

۲۔ مادی ناداری میں اللہ کی بندگی کی دارائی مل جاتی ہے: وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ ۔۔۔۔


آیت 37