وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

34۔ ہر وہ چیز تمہیں دے دی گئی جس کا تم نے سوال کیا۔ یہ سوال ہماری فطرت کی طرف سے تھا یا انسانی ارتقاء اور زندگی کی بقا کے تقاضوں کی طرف سے؟ ہماری ضرورتوں کی طرف سے تھا یا ہماری خواہشات کی طرف سے؟ بہرحال اللہ تعالیٰ نے صرف ضرورت کی حد تک نعمتیں عنایت نہیں فرمائیں۔ کیونکہ ضرورت تو صرف دانہ گندم یا جو سے پوری ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود مختلف دانوں، طرح طرح کے میووں اور سینکڑوں غذائی اشیاء کی فراہمی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے ہر وہ نعمت عطا کی ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ کی غیر محدود نعمتوں کو محدود انسان شمار نہیں کر سکتا، کیونکہ انسان کے لیے ان نعمتوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے اور وہ ان کا شمار نہیں کر سکتا بلکہ وہ ان نعمتوں سے غفلت برتتا ہے اور ان پر توجہ ہی نہیں ہوتی۔ سچ مچ انسان بڑاہی نا انصاف اور ناشکرا ہے۔

رہی زبانی سوال کی بات تو اللہ کی درگاہ سے کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ جو دعائیں بظاہر قبول نہیں ہوتیں اس کی چند ایک وجوہات ہیں: ٭ وہ دعا سرے سے دعا ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف زبان ہلائی جاتی ہے۔ ٭دعا کا قبول ہونا سائل کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ٭ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا ہو جو قبول دعا کے لیے رکاوٹ ہیں: و اغفرلی الذنوب التی تحبس الدّعاء ۔ (دعائے کمیل)