آیات 35 - 36
 

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ ﴿ؕ۳۵﴾

۳۵۔ اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ابراہیم نے دعا کی: میرے رب! اس شہر کو پر امن بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔

رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضۡلَلۡنَ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

۳۶۔ میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو یقینا بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ سورہ بقرہ آیت ۱۲۶ میں امن مکہ کے بارے میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہے ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ حضرت خلیل علیہ السلام کی یہ دعا: مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ ظاہر ہے گمراہی سے بچ کر راہ راست پر آنے کے لیے اللہ کی طرف سے توفیق اور ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت کی ضرورت ہر آن رہتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿﴾ میں ذکر کیا کہ ہدایت ایسی چیز نہیں کہ ایک بار اللہ سے وصول کر کے بے نیاز ہو جائے بلکہ ہدایت برقی کنکشن کی طرح ہے کہ ہر آن ملتی رہتی ہے۔ حضرت خلیل علیہ السلام کی یہ دعا یقینا قبول ہوئی ہے۔ لہٰذا اوالاد ابراہیم میں سے کوئی فرد بت پرستی نہیں کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں جس نے بتوں کی پرستش نہیں کی وہ فرزند ابراہیم ثابت ہوتا ہے۔ جیساکہ حضرت علی علیہ السلام نے کبھی بھی بت پرستی نہیں کی۔ چناچہ عبد اللہ بن مسعود راوی ہیں :

قال رسول اللّٰہ (ص): انا دعوۃ ابراھیم۔ قلنا: یا رسول اللّٰہ (ص) کیف صرت دعوۃ ابیک ابراھیم؟

رسول اللہؐ نے فرمایا: میں دعائے ابراھیمؑ ہوں۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہؐ ! آپ دعائے ابراھیم کیسے ہوئے؟

قال: اوحی اللہ عز و جل الی ابراھیم اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ فاستخف ابراھیم الفرح۔ فقال: یا رب! وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ائمۃ مثلی؟

فرمایا: اللہ نے ابراھیمؑ کی طرف وحی کی: اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراھیم ؑبہت خوش ہوئے اور عرض کیا: اے ربْ! کیا میری ذریت میں بھی مجھ جیسے امام ہوں گے؟

فاوحی اللہ عز و جل الیہ: ان یا ابراھیم انی لا اعطیک عھداً لا افی لک بہ ۔

اللہ نے وحی کی: اے ابراھیم میں آپ سے ایسا عہد نہیں کروں گا جسے میں پورا کرنے والا نہیں ہوں۔

قال: یا رب و ما العھد الذی لا تفی لی بہ؟

ابراھیمؑ نے عرض کیا: اے ربْ! وہ عہد کیا ہے جسے آپ پورا نہیں کریں گے؟

قال: لا اعطیک لظالم من ذریتک ۔

فرمایا: آپ کی اولاد میں سے ظالم کو یہ عہد نہیں دوں گا۔

قال: یا رب! و من الظالم من ولدی الذی لا ینالہ عھدک ؟

عرض کیا: میری اولاد میں ظالم کون ہے جس تک آپ کا عہد نہیں پہنچ سکتا؟

قال: من سجد لصنم دونی لا اجعلہ اماماً ابداً و لا یصلح ان یکون اماما ۔

فرمایا: جس نے مجھے چھوڑ کر بت کو سجدہ کیا ہو میں اسے امام نہیں بناؤں گا۔ وہ امام بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

قال ابراھیم عندھا: وَّ اجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ ﴿﴾ رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضۡلَلۡنَ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ قال النبی (ص) فانتھت الدعوۃ الیّ و الی اخی علی (ع) لم یسجد احد منا لصنم قط فاتخذنی اللّٰہ نبیّاً و علیا وصیّاً ۔

اس پر ابراھیمؑ نے کہا: مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ اے ربْ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔

پھر نبیؐ نے نے فرمایا: یہ دعوت مجھ تک اور میرے بھائی علی تک پہنچی۔ ہم میں سے کسی نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ پھر اللہ نے مجھے نبی اور علی کو وصی بنایا۔

ملاحظہ ہو: مناقب مغازلی شافعی صفحہ ۲۷۶۔ شواھد التنزیل ذیل آیہ۔ امالی طوسی۱: ۳۸۸۔

۴۔ ملت خلیل میں داخل ہونے کے لیے اتباع ہی بنیاد ہے۔ اتباع نہ کرنے سے اولاد بھی ملت خلیل سے خارج ہو جاتی ہے اور اتباع سے دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ۶۸ میں بھی ذکر ہوا کہ اس نبی آخر الزمان (ص) کی ملت کے لیے بھی اتباع بنیاد ہے۔

۵۔ جو شخص نافرمانی کرے گا تو تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جو نافرمانی کر کے بت پرستی اختیار کرتا ہے، اس کے لیے خلیل (ع) دعائے مغفرت کر رہے ہیں بلکہ خلیل (ع) ان بت پرستی کرنے والوں کے لیے دعائے ہدایت فرما رہے ہیں کہ ان کو شرک سے بچا اور اپنی رحمت کا اہل بنا دے۔ چنانچہ جو لوگ اس بات کے اہل تھے، ان کے لیے دعائے خلیل (ع) قبول ہو جاتی ہے اور جو لوگ سرے سے اہل ہی نہ تھے وہ رحمت الٰہی کے شامل حال نہیں ہوئے۔ جب کہ

وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔ ( ۷ اعراف: ۱۵۶)

اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء بھی ہمیشہ توفیق الٰہی کے محتاج ہوتے ہیں۔

۲۔ ملت انبیاء میں داخل ہونے کے لیے اتباع بنیاد ہے۔


آیات 35 - 36