آیت 34
 

وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ: سابقہ آیت میں انسانی ضرورت کی بعض اہم چیزوں کا ذکر تھا اور اس آیہ شریفہ میں ایک جامع عبارت میں فرمایا: ہر وہ چیز تم کو دے دی گئی ہے جس کا تم نے سوال کیا۔ یہ سوال ہماری فطرت یا ہماری ارتقا اور زندگی کی بقا کے تقاضوں اور ہماری ضروریات کی طرف سے تھا یا ہماری خواہشات کی طرف سے۔ چونکہ اللہ نے صرف ضرورت کی بنیاد پرنہیں بلکہ خواہشات کی بنیاد پر نعمتیں عنایت فرمائی ہیں۔ چنانچہ دانہ جو یا دانہ گندم سے انسان زندہ رہ سکتا ہے اس کے باوجود مختلف دانوں اور طرح طرح کے میوں اور سینکڑوں غذائی اشیاء کی فراہمی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے ہر وہ نعمت عطا کی ہے جس کا تصور انسان کر سکتا ہے اور اس کے ذہن و خیال میں آ سکتی ہے۔

۲۔ رہی زبانی سوال کی بات تو اللہ کی درگاہ سے کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ جو دعائیں بظاہر قبول نہیں ہوتیں اس کی یہ وجوہات ہیں:

i۔ سرے سے دعا ہوتی ہی نہیں ، صرف زبان ہلائی جاتی ہے اور حلق سے آواز نکلتی ہے۔

ii۔ قبولیت دعا میں مصلحت نہیں۔ نادانی کی وجہ سے بندہ سوال کرتا ہے ورنہ اگر اسے علم ہوتا تو اس چیز کا سوال نہ کرتا۔

لیکن اگر حقیقتاً دعا دل سے نکل جائے اور بندے کی دینی و دینوی مصلحت میں ہو تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ دعا قبول فرمائے گا:

فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۸۶)

میں (ان سے) قریب ہوں ، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے۔۔۔۔

ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ۔۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۶۰)

مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔۔۔۔

۳۔ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ: یقینا اللہ کی غیر محدود نعمتیں ، محدود انسان شمار نہیں کر سکتا کیونکہ شمار کے لیے نعمتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ انسان ان نعمتوں کا علم تک نہیں رکھتا تاکہ شمار کرے۔ چنانچہ کل کے انسان سے آج کا انسان اس کائنات کی کچھ باریکیوں کا زیادہ علم رکھتا ہے لیکن اس کی معلومات، مجہولات کے مقابلے میں ہنوز ہیچ ہیں۔

۴۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ: انسان کو مخدوم بنایا۔ اس کی خواہشات پوری کیں۔ بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اس کے باوجود یہ انسان کس قدر ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ ان نعمتوں پر اکتفا نہیں کرتا اور دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے۔ ان کی قدر بھی نہیں کرتا بلکہ منعم کی شان میں شرک و معصیت سے گستاخی کرتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذلک ۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی تمام ضروریات اور خواہشات پوری کی گئی ہیں۔

۲۔ کفران نعمت خود اپنی جگہ ظلم ہے۔


آیت 34