اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۶۱﴾ۙ

۱۶۱۔جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں اور اسی حالت میں مر جاتے ہیں ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۱۶۲﴾

۱۶۲۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶۳﴾٪

۱۶۳۔ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس رحمن رحیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔

163۔ الٰہ :معبود کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ واحد ہے۔ اس کی ذات ایک ہے۔ وہ صفات میں بھی ایک ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں بھی تعدد نہیں ہے۔ یعنی اس کی حیات، قدرت، علم اور ذات ایک ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ذات خدا اور اس کی صفات دو متعدد چیزیں ہوں۔ صفت اور موصوف الگ ہوں۔ چنانچہ دیگر اشیاء میں ذات، صفات سے الگ اور ان سے متصف ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ذات کا صفات سے اتصاف اس وقت معقول ہے، جب یہ دونوں الگ ہوں۔

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔ یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

164۔ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہوا کے درج ذیل فوائد بیان فرماتے ہیں: ٭حیات بخش ہے٭ تنفس کے ذریعے اعضاء کا تحفظ ٭آواز کی منتقلی ٭خوشبو کی منتقلی٭ حرارت اور برودت کا اعتدال ٭بادلوں کی منتقلی ٭درختوں کی بارداری ٭کشتی رانی ٭کھانے کی چیزوں میں نرمی ٭آتش سوزی کا ذریعہ٭ موسم میں خنکی ٭رطوبت کی تخفیف۔ خلاصہ: موجوداتِ ارضی کے لیے ہوا حیات بخش ہے۔ (توحید مفضل سے اقتباس)

امام علیہ السلام کے فرمان کا ایک جملہ یہ ہے: وھو القابل للحر و البرد ”ہوا حرارت اور برودت کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے “۔

سورج کی روشنی کے مضر اثرات زمین کے مخصوص کرﮤ ہوائی اوزون کے ذریعے زائل ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ رو شنی چَھن کر ہم تک پہنچتی ہے، لیکن اس مخصوص کرﮤ ہوائی کے دائرے اوزون میں بعض وجوہات کی بنا پر شگاف پڑ جانے کی وجہ سے یہ مضر کرنیں اور شعاعیں براہ راست زمین تک پہنچ رہی ہیں جن کے مہلک اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مدمقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہیے اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں اور کاش یہ ظالم لوگ عذاب کا مشاہدہ کر لینے کے بعد جو کچھ سمجھنے والے ہیں اب سمجھ لیتے کہ ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں نہایت شدید ہے۔

اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ﴿۱۶۶﴾

۱۶۶۔ (اس وقت کا خیال کرو) جب راہنما اپنے پیروکاروں سے اظہار برائت کریں گے اور عذاب کا مشاہدہ کریں گے اور تمام تعلقات ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔

166۔ ان لوگوں کی بات ہے جنہوں نے حق کو نہیں پہچانا بلکہ شخصیات کی جاہ و جلالت دیکھ کر انہیں حق و باطل کا معیار قرار دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے ایسے لوگوں سے فرمایا: الحق لایعرف بالرجال اعرف الحق تعرف اھلہ ۔ حق شخصیات سے نہیں پہچانا جاتا، حق کو پہچان لو پھر تم اہلِ حق کو بھی پہچان لو گے۔ (روضۃ الواعظین 1: 31)

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ﴿۱۶۷﴾٪

۱۶۷۔ اور (دنیا میں) جو لوگ( ان کے ) پیروکار تھے وہ کہیں گے: کاش ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی ان سے (اسی طرح) اظہار برائت کرتے جس طرح یہ (آج) ہم سے اظہار برائت کر رہے ہیں،اس طرح اللہ ان کے اعمال کو سراپا حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں پائیں گے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

168۔ اس آیت سے اصل حِلّیّت ثابت ہوتی ہے کہ زمین میں موجود چیزیں دو شرطوں کے ساتھ انسان کے لیے مباح ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ حلال ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ پاکیزہ ہوں۔

اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ الۡفَحۡشَآءِ وَ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔

169۔ شیطان کی گمراہ کن تحریک کے دو عناصر ہیں: ایک یہ کہ انسان کو بے حیائی کے ارتکاب پر آمادہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ بغیر علمی سند کے اللہ کی طرف باتیں منسوب کرے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: إیّاک و خصلتین ففیھما ھلک من ھلک : ان تفتی برأیک و تدین بما لا تعلم (وسائل الشیعہ27:21)۔ دو باتوں سے اجتناب کیا کرو، ان دو باتوں کی وجہ سے لوگ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں: اپنی ذاتی رائے سے حکم نہ بتایا کرو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے انہیں اپنے دین کا حصہ نہ بناؤ۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔

170۔ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ... ۔ اس آیت میں اندھی تقلید کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اندھی تقلید وہ ہے جو عقل و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ اسلام عقل، دلیل اور سند کے بغیر کسی مؤقف کو درست تصور نہیں کرتا۔ اس لیے یہ کہنا نہایت نا انصافی ہے کہ مذہب اندھی تقلید کا نام ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں انسانی زندگی چار ادوار پر مشتمل ہے۔داستانی، مذہبی، فلسفی اور سائنسی۔ مذہب دوسرے دور سے مربوط ہے۔ لیکن یہ نظریہ درست نہیں، کیونکہ دین فلسفے سے پہلے دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ دین ابراہیمی سے پہلے ہندوستان، مصر اور کلدان میں فلسفہ رائج تھا۔ فروعی مسائل میں ماہر فقہ کی طرف رجوع کرنے کو بھی تقلید کہتے ہیں۔ مگر یہ بغیر دلیل و سند کے اندھی تقلید نہیں ہے، بلکہ یہ عقل و ہدایت کے ذریعے مذہب کو قبول کرنے کے بعد اس پر عمل کرنے کا ایک معقول ذریعہ ہے۔