آیت 170
 

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔

تفسیر آیات

اس آیت میں اندھی تقلید کی ممانعت اور مذمت کی گئی ہے۔ اندھی تقلیدوہ ہے جو عقل کی میزان پر پوری نہ اترے اور نہ ہی اس کی حقانیت پر کوئی سند ہو۔ اسلام کی حقانیت کی ایک بین دلیل یہ ہے کہ اسلام عقل و تدبر کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ کیونکہ ایک چیز اگر مبنی برحق نہ ہو تو اس کا داعی عقل و تدبر کے خلاف ہوتا ہے تاکہ اس کا پول کھل نہ جائے۔ اس کے برعکس حق و حقیقت کی دعوت دینے والا چاہتا ہے کہ لوگ عقل سے کام لیں تاکہ اس کی دعوت کی حقانیت ان پر واضح ہو جائے۔ بنا براین قرآن کسی بات کو تسلیم کرنے کے دو اصول بتاتا ہے۔

۱۔ انسان اپنی عقل و فہم کے ذریعے خودحقیقت کو سمجھ لے تو یہ عقلی معیار کے مطابق ہونے کی وجہ سے تقلید نہیں ہے۔

۲۔ایسی دلیل پر اعتمادکرے جو علم پر منتہی ہو نیز وہ اس کی ہدایت و رہنمائی بھی کرتی ہو۔

کچھ محسوس پرست حضرات کا کہنا ہے کہ مذہب بھی علم کے خلاف ایک اندھی تقلید کا نام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے چار ادوار (داستانی دور، مذہبی دور، فلسفی دور اور سائنسی دور) میں سے دوسرے دور کی پیداوار ہے۔علامہ طباطبائی قدس سرہ جواب میں فرماتے ہیں :

مذہب اندھی تقلید کا نام نہیں ہے کیونکہ مذہب توحید و معاد سے متعلق معارف کا ایک علمی مجموعہ ہے۔ اس میں معاشرت، عبادات اور معاملات سے متعلق ایسے قوانین موجودہیں جو وحی اور نبوت کے ذریعے ثابت ہیں۔ جب کہ وحی و نبوت دلیل و برھان کے ذریعے ثابت ہیں، جس پر ہمیں علم و یقین حاصل ہے۔ لہٰذا مذہب علمی ہے، تقلیدی نہیں۔ مقام تعجب ہے کہ ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی دستور حیات ہے اور نہ ہی معاشرتی آداب۔ مثلاً وہ خورد و نوش اورلباس و نکاح کے سلسلے میں صرف اندھی تقلید پر عمل کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کرنے کے سلسلے میں یہ درست نہیں ہے کہ دین، فلسفے سے پہلے کی پیداوار ہے، بلکہ دین ابراہیمی (ع) سے پہلے ہندوستان، مصر اور کلدان میں فلسفہ موجود تھا۔ اسی طرح مسیحیت سے پہلے یونان میں فلسفہ ظہور پذیر ہوا تھا اور دین اسلام سے پہلے یونان کا فلسفہ اپنے عروج پر تھا یعنی عروجِ مذہب سے پہلے فلسفہ اپنے عروج پر تھا۔

فروع دین میں تقلید: جس اندھی تقلید کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے وہ اصول دین کے بارے میں اور مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ کے مقابلے میں وہ آبائی تقلید ہے، جو عقل و ہدایت سے عاری ہو۔ لیکن دلیل و برہان کے ذریعے اصول دین کو سمجھنے، اس پر مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ کے مطابق ایمان لانے کے بعد، شرعی احکام کی تفصیل معلوم کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے ماہرین (مجتہدین) کی طرف رجوع کرنے کو اندھی تقلید نہیں کہتے،بلکہ یہ تو علم و ہدایت پر عمل کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کی اللہ، رسول اور آئمہ علیہم السلام کی طرف سے نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسے تاکید کے ساتھ واجب قرار دیا گیا ہے۔

مومن راہ وحی و ہدایت سے متصادم دوسری باتوں کو اس بنا پر ہرگز قبول نہیں کرے گا کہ یہ ہماری دیرینہ مسلمات اور آبائی روایات ہیں۔ مثلاً علم حاصل کرنا از روئے عقل نیک عمل ہے اورزکوۃ دینا حکم خدا کے مطابق نیک عمل ہے۔ ان دونوں کے علاوہ اندھی تقلید ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلام اندھی تقلید سے منع کرتا ہے۔

۲۔ بہت سی عادات و رسوم عقلی و شرعی دلیل سے محرومی کے باعث گمراہی کاباعث ہوسکتی ہیں، لہٰذا وہ حجت نہیں ہیں۔

۳۔ نسلی تعصب، انسان کو شناخت کی صلاحیت سے محروم کرتا ہے۔


آیت 170