آیات 161 - 162
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۶۱﴾ۙ

۱۶۱۔جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں اور اسی حالت میں مر جاتے ہیں ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۱۶۲﴾

۱۶۲۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

تفسیر آیات

یہ آیات ان کافروں کے بارے میں ہیں جو حق کو سمجھنے کے بعد جان بوجھ کر کفر اختیار کرتے ہیں۔ کفر کا لغوی مفہوم چھپانا ہے۔ یہ مفہوم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی چیز کی حقانیت کا علم ہو جانے کے بعد بھی زبان و کردار سے اس کا اظہار نہ کیا جائے۔ اسلام کی حقانیت کا اعتراف نہ کرنے والوں کی تین اقسام ہیں:

۱۔ اسلام کی حقانیت کا علم ہونے کے باوجود اس پر ایمان نہ لانے والے۔ ایسے لوگ اس آیت میں شامل ہیں۔

۲۔ انہیں اسلام کی حقانیت کا علم تو نہیں ہے، لیکن اس علم کا حاصل کرنا ان کے لیے ممکن ہے اور وہ اس میں کوتاہی اور تساہل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اسلام کی حقانیت معلوم نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو جاہل مقصر کہتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اس آیت کے مفہوم میں شامل ہیں۔

۳۔ انہیں اسلام کی حقانیت کا علم نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا علم حاصل کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جاہل قاصر اور مستضعف کہتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ کافروں جیسا سلوک نہ ہو گا۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔

حالت کفر کی موت: مجموعی طور پر آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہر کافر پر اللہ اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کافرہونے والے سب اس میں شامل ہو جاتے، بلکہ اس کے ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ وہ کفر کی حالت میں مر جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موت سے قبل کسی بھی مرحلے میں اس کے لیے کفر چھوڑنے کی گنجائش موجود ہے اور وہ کافروں کی صف سے نکل سکتا ہے۔

احادیث

کلینیؒ نے کافی میں روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِہٖ بِسَنَۃٍ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ ثُمَّ قَالَ : اِنَّ ألسَّنَۃَ لَکَثِیْرۃٌ مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِہٖ بِشَھْرٍ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ ثُمَّ قَالَ اِنَ الشَّھْرَ لَکَثِیْرٌ، مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِہٖ بِجُمْعَۃٍ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ ثُمَّ قَالَ اِنَّ الْجُمْعَۃَ لَکَثِیْرٌ‘ مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِہٖ بِیَوْمٍ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ ثُمَّ قَالَ اِنَّ یَوْماً لَکَثِیْرٌ مَنْ تَابَ قَبْلَ اَنْ یُّعَایِنَ قَبِلَ اللّٰہُ تَوْبَتَہٗ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۴۴۰}

جو شخص موت سے ایک سال پہلے توبہ کر لے، اﷲ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ پھر فرمایا: سال کا عرصہ تو بہت ہے جو شخص موت سے ایک ماہ قبل توبہ کر لے، اﷲ اس کی توبہ قبول کر لے گا۔ پھر فرمایا : مہینہ بھی بہت ہے، جو شخص موت سے ایک جمعہ پہلے توبہ کرلے اﷲ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ پھر فرمایا: جمعہ بھی بہت ہے جو شخص موت سے ایک دن قبل توبہ کر لے، اﷲ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ پھر فرمایا: دن بھی بہت ہے، جو شخص موت نظر آنے سے پہلے توبہ کرلے، اﷲ اس کی توبہ قبول کرے گا۔

اہم نکات

۱۔ موت سے قبل کسی وقت بھی کفر چھوڑ کر مذکورہ لعنت سے بچنے کی گنجائش موجود ہے۔


آیات 161 - 162