آیات 168 - 169
 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ الۡفَحۡشَآءِ وَ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔

تشریح کلمات

حلال:

( ح ل ل ) حلّ ۔ گرہ کشائی کے معنوں میں ہے: وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ۔ {۲۰ طہٰ :۲۷} ’’اور میری زبان کی گرہ کھول دے‘‘۔ کسی جگہ فروکش ہونے کو بھی کہتے ہیں۔ مقام کو مَحَل کہا جاتا ہے۔ لہٰذا حلال سے مراد ہے آزادی و حریت۔ اس کے مقابلے میں حرام آتا ہے، جو گرہ، پابندی اور قید کے معنوں میں ہے۔

طیّب:

( ط ی ب ) پاکیزہ و حلال چیز، جس سے انسان کو مادی و روحانی لذت حاصل ہو۔ اگر کوئی چیز صرف مادی طور پر لذت دے، لیکن اخلاقی اور انسانی اقدار کے خلاف ہو تو وہ طیّب نہیں ہے۔ طیّب انسان وہ ہے جو جہالت اور فسق وفجور کی نجاست سے پاک ہو، اس کی ضد خبیث ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت کا خطاب پوری انسانیت سے ہے۔ زیر بحث مسئلہ سب انسانوں سے مربوط ہے کہ زمین کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ یہ سب کچھ انسان کے لیے خلق ہوا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔ {۲ بقرہ : ۲۹}

جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔

یہ فرمان دین اسلام کے آفاقی مزاج، کائناتی تقاضوں اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ انسان مَافِی الْاَرض سے صرف کھانے میں ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے تصرف میں آزاد ہے۔ اس میں کسی قسم کی ناروا اور غیر ضروری پابندی نہیں ہے۔ اگر کوئی پابندی ہے تو دراصل یہ بھی پاکیزگی کے لیے ہے۔ البتہ حلال و حرام کے سلسلے میں ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حلال و حرام، رازق کی طرف سے ہو، شیطان کی طرف سے نہ ہو۔ جس نے رزق دیا ہے وہی پابندی لگا سکتا ہے، کیونکہ وہ جائز پابندی لگائے گا۔ پابندی اگر شیطان کی طرف سے ہوگی تو وہ برائی اور فسق میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس حکم میں درج ذیل لوگ شامل ہیں:

۱۔ مشرکین: جنہوں نے اللہ کی حلال کردہ بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ جن کا ذکر خود قرآن مجید نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔

۲۔ رہبانیت: ترک دنیا کرنے والے۔ جنہوں نے خود اپنے اوپر بہت سی حلال اور طیب چیزوں کو حرام قرار دیا ہو۔ یہ باتیں اذنِ خدا کے بغیر خود اپنی طرف سے تشریع و تقنین میں دخل اندازی شمار ہوتی ہیں، جو شیطانی عمل ہے۔ کچھ سادہ مسلمان بھی اس توہم کا شکار ہیں کہ مؤمن کے لیے زمین کی تمام چیزیں جائز نہیں۔ اس کی تفصیل کسی مناسب مقام پر ذکر ہو گی۔

احادیث

کافی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :

اِیَّاکَ وَ خَصْلَتَیْنِ فَفِیْھِمَا ھَلَکَ مَنْ ھَلَکَ : اِیَّاکَ اَنْ تُفْتِیَ النَّاسَ اَوْ تَدِینَ بِرَأْیِکَ وَ تُدِیْنَ بِمَا لَا تَعْلَمْ ۔ {اصول الکافی ۱ : ۴۲}

دو باتوں سے اجتناب کرو، کیونکہ ان دو باتوں کی وجہ سے لوگ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں۔ اپنی ذاتی رائے سے فتویٰ نہ دو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے، انہیں اپنے دین کا حصہ مت بناؤ۔

اس آیت اور دیگر متعدد آیات سے ایک ضابطہ سامنے آتا ہے کہ اسلام کے نزدیک بنیادی طور پر زمین کی تمام نعمتیں حلال ہیں۔ کسی چیز کی حرمت کے لیے دلیل ضروری ہے۔ لیکن کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو، مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جیسا کہ انسان بنیادی طور پر بے گناہ ہوتا ہے، جب تک کہ جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔

اہم نکات

۱۔ خدا کی پاک اور حلال نعمتوں سے لطف اندوز ہونا دنیا پرستی نہیں ہے۔

۲۔ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دینا رہبانیت اور شیطانی عمل ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ۔۔۔۔

۳۔ رزق دینے والا ہی حلال و حرام کا تعین کر سکتا ہے۔

۴۔ علم اور دلیل کے بغیر اللہ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا شیطانی عمل ہے۔

تحقیق مزید: مستدرک ۱۶ : ۳۳۳۔


آیات 168 - 169