آیت 164
 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔ یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

تشریح کلمات

خَلۡقِ:

( خ ل ق ) متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

۱۔ ابداع یعنی ایک شے کو عدم سے وجود میں لانا۔ اسے خلق ابداعی کہتے ہیں۔ چنانچہ جہاں خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ کہا گیا ہے وہاں بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ {۲ بقرہ : ۱۱۷۔ ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔} سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ خلق ابداعی خداوند عالم کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔

۲۔ ایک شے کو دوسری چیز سے بنانے کو بھی خلق کہتے ہیں جیسے: خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ۔۔۔{۱۶ نحل: ۴۔ ترجمہ اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا۔} اس معنی میں یہ لفظ غیر خدا کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ (ع) سے خطاب کر کے فرمایا :

وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ ۔۔۔ {۵ مائدہ: ۱۱۰}

اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے۔

۳۔ اندازہ گیری کے معنوں میں آتا ہے۔ جوہری نے صحاح میں کہا ہے:

اس مطلب کی وضاحت اسی آیت کے ذیل میں آئے گی۔ انشاء ﷲ ۔

۴۔ جھوٹ تراشنے کو بھی خلق کہتے ہیں جیسے فرمایا: وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا ۔ {۲۹ عنکبوت: ۱۷} اور جھوٹ گھڑ لیتے ہو۔

اخۡتِلَافِ

( خ ل ف ) کسی کے پیچھے آنا۔ ایک دوسرے کے طریقۂ کار میں ہم آہنگی نہ ہونا۔ آمد و رفت (آنے جانے ) کو بھی اختلاف کہتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

یَعْلَمُ۔۔۔ اِخْتِلَافَ النِّیْنَانِ فِی الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ ۔ {بحار الانوار ۴ : ۹۲}

وہ (ﷲ) اتھاہ سمندروں میں مچھلیوں کی آمد و رفت کو بھی جانتا ہے۔

معصوم (ع) کی زیارت میں پڑھتے ہیں: وَمُخْتَلَفُ الْمَلَائِکَۃِ ۔ {الفقیہ ۲: ۶۰۹ زیارت جامعۃ} ’’فرشتوں کے آنے جانے کی درگاہ‘‘ اور ممکن ہے اسی سے ہو: اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ۔ {وسائل الشیعۃ ۲۷: ۱۴۰} ’’میری امت کی آمد و رفت میں رحمت ہے۔‘‘ یعنی جس جگہ یہ لوگ جائیں گے وہاں اسلام کا فیض پہنچائیں گے اور لوگوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے آداب سکھائیں گے۔

دَآبَّۃٍ ۪

(د ب ب) آہستہ آہستہ چلنا۔زمین پر رینگنے والے جاندار۔ عرف عام میں چوپاؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

الۡمُسَخَّرِ

(س خ ر) مسخر ، مطیع و فرمانبردار، رام کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔

تَصۡرِیۡفِ

( ص ر ف ) کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا۔ یعنی نقل و انتقال اور تغییر۔

یَّعۡقِلُوۡنَ

( ع ق ل ) عقل وہ قوت ہے جو قبول علم کی اہلیت رکھتی ہے۔ اصل میں عقل روکنے اور پابند رکھنے کے معنوں میں ہے۔ چنانچہ اونٹ کے پاؤں باندھ دینے کو عِقَال کہتے ہیں اور مضبوط قلعہ کو مَعْقِلٌ کہا جاتا ہے۔ عقل انسان کو خطرات اور نقصانات سے محفوظ رکھتی ہے اور مفید چیزوں کا پابند بنا دیتی ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مخلوقات سے خالق اور مصنوعات سے صانع کے وجود کو ثابت کرنے کا طرز استدلال اختیار فرمایا ہے۔یہ طرز استدلال، ایک فطری استدلال ہونے کے ساتھ ساتھ سادہ ترین اور آسان ترین استدلال ہے جسے سطحی ذہن رکھنے والے لوگ بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ چنانچہ لوگ اپنے تمام تر معاملات میں یہی طرز استدلال اپناتے ہیں جہاں براہ راست حس و مشاہدہ ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ہم ایک دوسرے کے دلوں میں براہ راست جھانک کر تو دیکھ نہیں سکتے کہ کس کے دل میں کیا ہے، تو وہاں ایک دوسرے کے قول و عمل سے دلوں کا حال معلوم کر لیتے ہیں۔

کبھی ہمیں براہ راست معلوم نہیں ہوتا کہ زید ریاضی دان ہے، سعید ماہر نفسیات ہے اور ماجد ادیب، شاعر ہے۔ یعنی ہم ان لوگوں کے ذہن کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے کہ ان کے اذہان میں کون سا علم ہے، لیکن ان لوگوں کی کتب، ان کے کار ہائے نمایاں اور ان کے اشعار کے ذریعے ہم ان کے علوم سے باخبر ہوتے ہیں۔ اگر علامہ اقبالؒ کے اشعار ہمارے سامنے نہ ہوتے تو ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ علامہ اقبالؒ کس پایے کے مفکر ہیں۔

خداوند عالم نے اس آیہ مجیدہ میں ہمیں اپنی آفاقی کتاب (کائنات) کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ اس کتاب کا ہر باب اس کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور اس کی ہر سطر اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس کا ہر کلمہ وجود خداوندی کی براہین میں سے ایک برہان ہے۔ اس کی کتاب آفاق اور کتاب اَنْفُسْ کا ہر ورق بتا رہا ہے کہ اس کے اندر موجود حیرت انگیز مواد اور مطالب ارادے و شعور سے ہی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان حکمتوں اور پیچیدہ ترین خلقت و صنعت کے پیچھے ایک حکیمانہ ارادہ کار فرما ہے۔

مردہ مادے سے ایک زندہ خلیے کا از خود اور اتفاقاً وجود میں آنا ممکن نہیں ہے۔ ایک کمپیوٹر کا اتفاقیہ طور پرخودبخود وجود میں آنا شاید ممکن ہو، لیکن اس کمپیوٹر کو ایجاد کرنے والے دماغ کا خودبخود وجود میں آنا ممکن نہیں ہے۔

اتفاق کی امکانی صورت

ایک مغربی مفکر اپنی کتاب میں لکھتا ہے(جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے ) :

دس ٹوکنوں پر ایک سے دس تک نمبر لگائیں پھر انہیں اپنی جیب میں ڈال کر خوب ہلائیں۔ اس کے بعد ترتیب کے ساتھ جیب سے نکالیں۔ جس ٹوکن کو جیب سے نکالا ہے، اسے دوبارہ جیب میں ڈال کر ہلائیں پھر دوسری بار دوسرا ٹوکن نکالیں۔ اس طرح ایک نمبر ٹوکن کے اتفاقیہ طور پر نکلنے کا امکان دس میں سے ایک ہے۔ ایک اور دو کے بالترتیب نکل آنے کا امکان سو میں سے ایک ہے۔ ایک دو اور تین کے ترتیب سے نکل آنے کا امکان ایک ہزار میں سے ایک ہے۔ ایک دو تین اور چار کے ترتیب سے نکل آنے کا احتمال دس ہزار میں سے ایک ہے۔ ایک دو تین چار اور پانچ کے ترتیب کے ساتھ نکل آنے کا امکان ایک لاکھ میں سے ایک ہے۔ اس طرح ایک سے لے کر دس تک کے ترتیب کے ساتھ اتفاقیہ طور پر نکل آنے کا احتمال دس ارب میں سے ایک ہے۔

اس سادہ مثال کے بعد انسانی خلقت پر ایک نظر ڈالیں کہ انسان کئی ملین خلیوں کی ترتیب و ترکیب سے وجود میں آیا ہے۔ گویا انسان کی خلقت اربوں ٹوکنوں کو ترتیب کے ساتھ رکھنے سے ہوئی ہے۔ اب سوچیے کہ دس ٹوکنوں کے ترتیب کے ساتھ نکل آنے کا احتمال دس ارب احتمالات میں سے ایک ہے تو اگر یہ ٹوکن کئی ملین ہوں تو ترتیب کا احتمال کتنا ہوگا؟ جواب صفر ہے۔ آسمانوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۔ {۴۰ مومن: ۵۷}

آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

بنا برایں عقل، منطق کی رو سے یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ عظیم کائنات کسی علیم و حکیم و قادر ہستی کے ارادے کے بغیر اتفاقاً اور خودبخود وجود میں آئی ہو۔ اثبات رب کے لیے عقلی استدلال کی یہ معقول ترین روش قرآن کا طرہ امتیاز ہے۔

۱۔ اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ آسمانوں کا ذکر قران مجید میں جمع کے ساتھ تقریباً دو سو آیات میں اور مفرد کے ساتھ تقریباً ایک سو آیات میں ہوا ہے۔ جب کہ زمین (ارض) کا ذکر ہمیشہ مفرد لفظ کے ساتھ ہوا ہے۔ صرف ایک آیت ہے جس سے یہ خیال ظاہر ہوا ہے کہ زمین بھی متعدد ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:۔۔۔ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ۔ {۶۵طلاق : ۱۲۔ ترجمہ۔۔۔ سات آسمان بنائے، انہی کی طرح زمین بھی۔}

کتاب کائنات کا سماواتی باب توحید کے گوناگوں مباحث و دروس سے لبریز ہے۔ نظام کی وحدت سے نظم دہندہ کی وحدت کا ثبوت ملتا ہے۔ وحدتِ خلقت سے توحید خالق کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ آج کا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ ایٹم کی تشکیل اور نظام شمسی کی تشکیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نظام شمسی اور کہکشاؤں کے نظام میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام کائنات میں ایک ہی طرز تنظیم اور ایک ہی طریقے کا نظام رائج ہے۔ اگر ایٹمی نظام میں پروٹون کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دیگر الیکٹرونی سیارے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہیں تو نظام شمسی اور کہکشاؤں کا نظام بھی تو یہی ہے۔

حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہر کہکشاں میں کم از کم ایک سو بلین (ایک کھرب)ستارے موجود ہوتے ہیں۔ اب تک ایک سو بلین (ایک کھرب)کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے دو ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ آسمانوں کی وسعت اور عظمت کا اندازہ لگا لیجیے۔

اب آپ ہرکہکشاں میں موجود ایک لاکھ ملین (سو ارب)ستاروں کو خود ایک لاکھ ملین (سو ارب)کہکشاؤں سے ضرب دیں۔ تو حیرت انگیز تعداد سامنے آتی ہے۔

واضح رہے کہ ان ستاروں میں سے ہر ایک اپنی جگہ ہمارے سورج کی طرح ایک مجموعہ شمسی ہے بلکہ دیگر ستارے ہمارے سورج سے لاکھوں گنا بڑے ہیں۔

یہ اعداد و شمار انسان کی اب تک کی علمی رسائی کا نتیجہ ہیں، ورنہ کائنات کا وہ حصہ جو انسان کی علمی رسائی سے ماوراء ہے، اس حصے سے کہیں زیادہ عظیم ہے جس کو انسان جان چکا ہے:

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ۔ {۵۱ ذاریات :۴۷}

اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں

صدق اﷲ العلی العظیم۔

۲۔ وَ الۡاَرۡضِ زمین۔ زمین جسامت کے لحاظ سے نظام شمسی کا پانچواں اور سورج سے فاصلے کے لحاظ سے تیسرا سیارہ ہے۔ اس کی متعدد حرکات ہیں:

۱۔ حرکت محوری: اس حرکت کے تحت زمین اپنے مدار کے گرد لٹو کی طرح گھومتی ہے، جس سے روز و شب وجود میں آتے ہیں۔

۲۔ حرکت انتقالی: اس حرکت کے تحت زمین ۳۶۵ روز پانچ گھنٹے ۲۸ منٹ اور ۴۰ سیکنڈ میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے۔ اس طرح سال میں ۹۳۰ ملین کلومیٹر کی مسافت ۲۹ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے طے کرتی ہے۔

۳۔ سورج کے ہمراہ حرکت: سورج اپنے سیاروں کے ساتھ مجموعی طور پر ایک خاص انداز میں اپنے پورے نظام کے ساتھ حرکت میں ہے اور زمین چونکہ اس نظام شمسی کی ایک اہم فرد ہے، اس لیے یہ بھی سورج کے ہمراہ نظام شمسی کے مدار میں حرکت کرتی ہے۔

اگر زمین موجودہ حجم سے بڑی ہوتی تو ہوا کے ذرات کشش زیادہ ہونے کی وجہ سے سطح زمین میں جذب ہو جاتے اور زمین قابل سکونت نہ رہتی اور اگر زمین موجودہ حجم سے چھوٹی ہوتی تو ہوا کے ذرات اس کی فضا میں محفوظ نہ رہتے اور کشش کم ہونے کی وجہ سے منتشر ہو جاتے۔

اگر زمین سورج سے زیادہ دور ہوتی تو سردی کی وجہ سے یہ قابل سکونت نہ رہتی اور اگر سورج سے زیادہ نزدیک ہوتی تو گرمی کی وجہ سے قابل سکونت نہ رہتی۔ لہٰذا زمین مناسب فاصلے پر ہے۔ سورج سے یہاں پہنچنے والی حرارت بھی مناسب ہے۔ زمین کی کشش بھی مناسب ہے۔ زمین کا حجم اس کی محوری (روزانہ کی) حرکت کے ساتھ متناسب ہے اور سالانہ گردش بھی مختلف موسموں کے لیے مناسب ہے۔ زمین کا وزن اس کی کشش کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ زمین پر موجود حرارت پانی کے مزاج کے لیے بھی مناسب ہے، ورنہ بہت زیادہ درجہ حرارت یا بہت کم درجہ حرارت میں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا اتحاد ممکن نہیں رہتا۔

زمین اگر موجودہ صورت حال سے زیادہ نرم ہوتی تو اس پر کوئی عمارت قائم نہ ہو سکتی اور اگر موجودہ صورت سے زیادہ سخت ہوتی تو سبزہ اگنا ممکن نہ ہوتا۔

زمین ستر (۷۰) سے زائد عناصر پر مشتمل ایک قابل حیات اور مہمان نواز سیارہ ہے، جس کے اندر بے شمار نعمتیں موجود ہیں:

وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ {۵۱ ذاریات : ۲۰}

اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔

۳۔ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ رات اور دن کی آمد و رفت۔ نور اور تاریکی کا تبادلہ، شروق و غروب کا یکے بعد دیگرے آنا، شعور و ارادہ اور حکمت و صنعت کی ایک دلیل ہی نہیں، بلکہ اس صاحب قصد و ارادہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ دن میں سورج کا نور سر چشمۂ حیات ہے اور اس تاریک و سرد فضا میں نور و حرارت کا منبع ہے۔ اگر یہ عظیم چراغ گل ہو جائے تو زندگی کا یہ کاروان فوراً رک جائے گا۔

تاہم اگراگریہیہ حیات بخش نور بلا وقفہ جاری رہے اور رات کے ذریعے اس نور اور شعاع کی تابش کو قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ نور سبب حیات بننے کی بجائے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پانی اگرچہ منبع حیات ہے، لیکن اس کی کثرت سیلاب کی شکل اختیار کرکے مہلک ثابت ہوتی ہے :

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ الَّیۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِضِیَآءٍ ۔ {۲۸ قصص ۷۱}

کہدیجیے!یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات کو مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ النَّہَارَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِلَیۡلٍ تَسۡکُنُوۡنَ فِیۡہِ ۔ {۲۸ قصص : ۷۲}

کہدیجیے! یہ تو بتاؤ کہ اگر قیامت تک اللہ تم پر ہمیشہ کے لیے دن کو مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے جس میں تم سکون حاصل کرو؟

۴۔ وَ الۡفُلۡکِ سمندروں میں چلنے والی کشتیاں اگرچہ انسانی صنعت و حرفت کا نتیجہ ہیں، لیکن انسان چونکہ خود اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہے، اس لیے اس کے ہاتھ سے وجود میں آنے والی صنعتیں اور ایجادات بھی اللہ کی نشانیاں ہیں نیز سمندروں کے پانی کا رخ اور پانی کا قدرتی مزاج جو اپنے سے ہلکی چیزوں کو اپنی پشت پر اٹھا لیتا ہے۔ بنا بر ایں ہوا یا کسی اور قوت و طاقت کے ذریعے غول پیکر بحری جہازوں کو بآسانی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

۵۔ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ آسمان سے پانی کا نزول۔ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ پانی و دیگر مائعات، مثلاً تیل وغیرہ منتقل کرنے کے لیے ٹینکر، پائپ لائن اور نہروں کا استعمال کرتے ہیں اور اس پر بے پناہ سرمایہ اور طاقت خرچ ہو جاتی ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے ڈیم بنائے جاتے ہیں، ان پر بھی کثیر سرمایہ اور وقت صرف ہوتا ہے۔ قدرت بھی یہی کام سر انجام دیتی ہے۔ مگر اس پر جو سرمایہ خرچ ہوتا ہے، وہ ہے فقط سورج کی شعاعوں کے ذریعے حرارت پہنچانا۔ البتہ یہ شعاعیں صرف اسی مقصد کے لیے نہیں ہیں، ان کی سینکڑوں دیگر ذمے داریاں بھی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی حرارت کے ذریعے پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ بخارات ہوا کے دوش پر سوار ہو کر فضا میں منڈلانے لگتے ہیں، پھر ایک خاص درجے کی برودت اور سردی پا کر بادل کی شکل اختیار کرتے ہیں۔یہ بادل ٹینکروں، نہروں اور پائپ لائنوں سے ہزار گنا بہتر، سریع تر اور مفید انداز میں ایک جگہ سے دوسری اطراف میں لاکھوں ٹن پانی لے کر جاتے ہیں۔ جس علاقے کی سیرابی مقصود ہو، اس پورے علاقے پر پانی کا وسیع چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، جسے ہم بارش کہتے ہیں۔ سُبۡحٰنَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ ۔

۶۔ خشک اور بے جان زمین میں جان پڑ جانا: زمین ابتدا میں سلگتی آگ کا ایک آتشی کرہ تھی۔ اس میں زندگی کے آثار نہ تھے اور نہ ہی یہ زندگی کے لیے سازگار تھی۔ یہاں نہ تو نباتاتی حیات ممکن تھی اور نہ حیوانی حیات۔ زمین مردہ مادے پر مشتمل ایک مردہ کرے کی شکل میں تھی۔

ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ مردہ مادے سے حیات وجود میں نہیں آ سکتی، بلکہ حیات کا سر چشمہ حیات ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ سوال الحادی نظریہ رکھنے والوں کے لیے تشنۂ جواب ہے کہ مردہ زمین سے حیات کس طرح وجود میں آئی؟ جب کہ اسلامی مؤقف کے مطابق مردہ زمین اور بے جان مادے میں حیات کا پیدا ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اللہ ہی بے جان زمین کو زندگی عطا کر سکتا ہے۔

۷۔ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ ہواؤں کی گردش۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی کائنات کی مختلف چیزوں میں ارتباط اور ہم آہنگی ہے۔ مثلاً اگر پستان مادر میں موجود دودھ اور نومولود بچے کے معدے اور تنفس کے نظام میں باہمی ہم آہنگی نہ ہوتی تو زندگی کا یہ قافلہ رواں دواں نہ رہ سکتا تھا۔ ہم ہوا اور دیگر موجودات میں ربط و ہم آہنگی پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں کہ دیکھیں اس نظام میں ہوا کیا کردار ادا کرتی ہے:

۱۔ تنفس: حیوانات اور نباتات کی زندگی اس ہوا کے ذریعے سانس لینے کی مرہون منت ہے۔ انسان ایک سو دس لیٹر فی گھنٹہ ہوا خرچ کرتا ہے۔ یہ ہوا اگر پانچ منٹ تک میسر نہ آئے تو انسان اپنی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتا۔

۲۔ آواز کی لہروں کو دور تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوا ہے۔

۳۔ آگ بھی ہوا کے وجود کی مرہون منت ہے۔

۴۔ ہوا کے ذریعے جسم پر ایک خاص دباؤ برقرار رہتا ہے۔ اگر یہ دباؤ کم ہو جائے تو ہمارے جسم کی رگیں پھٹ جائیں اور ان سے خون جاری ہو جائے۔

۵۔ بادلوں کی نقل و حرکت ہوا کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔

۶۔ آسمان سے روزانہ ہزاروں شہاب ثاقب زمین پر گرتے ہیں۔ اگر یہ ہوائی کرہ ڈھال کا کام دیتے ہوئے انہیں فضا ہی میں جلا کر راکھ نہ کرتا تو زمین پر تباہی پھیل جاتی اور زندگی ناممکن ہو جاتی۔

۷۔ روشنی کا پھیلاؤ بھی ہوا کے ذریعے ہوتا ہے۔

۸۔ بارداری: یہ عمل ہوا کے ذریعے انار، مالٹے، روئی اور خوبانی جیسے دانہ دار نباتات میں انجام پاتا ہے۔ شگوفوں کے اندر دانے پک جاتے ہیں تو ان کے اندر موجود کلیاں کھل جاتی ہیں اور یہ نہایت باریک دانے ہواؤں کے ذریعے اڑ کر مادہ پودوں کے پھولوں پر جا گرتے ہیں۔ اس طرح بار داری کا عمل انجام پاتا ہے:

وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ ۔۔۔ {۱۵ حجر : ۲۲}

اور ہم نے باردار کنندہ ہوائیں چلائیں۔

۹۔ ہوا حیوانات اور نباتات میں تبادلۂ حیات کا ذریعہ بھی ہے۔

۱۰۔ سورج کی شعاعیں خلا سے گزرتی ہوئی فضا میں داخل ہوتی ہیں۔ فضا میں ایک خاص ہوائی غلاف ہے،جسے اوزون کہتے ہیں۔ یہ غلاف سورج سے آنے والی بہت سی قاتل شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لیتا ہے۔ ان میں ماورائے بنفش شعاعیں بہت خطرناک ہیں۔ گرین ہاؤس کے عمل سے جہاں جہاں اوزون کے غلاف میں شگاف پڑے ہیں وہاں سے ماورائے بنفش شعاعوں کی زمین کی طرف آمد میں اضافہ ہوا ہے جو ایک خطرہ ہے۔

۱۱۔ خوشبواور بدبو کو دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہوا ہے۔

۸۔ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ فضا میں مسخر بادل۔ بادل کا فضا میں معلق ہونا، ہوا کے ذریعے اس کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا، بادل کا خشک اور بے جان زمینوں کو اپنے پانی سے سیراب کرنا، ایسے امور ہیں جن سے ایک باشعور حکیمانہ ارادے کا پتہ ملتا ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق کے اندر اس نظام کی بقا کے کتنے سامان موجود ہیں نیز یہ کہ ہوا، بادل، پانی، خاک اور دھوپ میں کس قدر ہم آہنگی ہے۔ اگر یہاں کوئی شعور اور ارادہ نہ ہوتا تو ان میں سے ہر کوئی دوسرے کے لیے اگر متضاد نہ سہی تو غیر ضروری اور غیر مفید ضرور ہوتا۔

یہ سب حکمتیں، یہ معجزات اور یہ محیر العقول کارنامے چشم بینا نہ رکھنے والوں اور غفلت برتنے والوں کے لیے روز انہ کے معمولات اور ہمیشہ سے مانوس چیزیں ہیں۔ یہ ان نادانوں کے لیے نہ تعجب کا مقام ہے، نہ حیرت کی بات۔ بھلا بادل سے بارش برسنا کوئی تعجب کی بات ہے؟ یہ تو روز کا معمول ہے۔ جس طرح ایک نہایت خوبصورت وادی میں آنکھیں کھولنے والا اس مقام کی خوبصورتی سے واقف نہیں ہوتا بلکہ باہر سے آنے والا جانتا ہے کہ یہ وادی کس قدر حسین ہے۔ بالکل اسی طرح کائنات پر عقل و تدبر کے ساتھ نگاہ ڈالنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کائنات کس قدر حسین اور پراسرار ہے اور اس میں خالق کائنات کے دست قدرت کی کس قدر نشانیاں ہیں: لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ۔صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡم ۔

احادیث

حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے :

وَیْلٌ لِمَنْ سَمِعَ ھَذِہِ الْاٰیَاتِ فَمَجَّ فیھا۔

ان آیات کو سننے کے بعد ان میں تفکر نہ کرنے والوں پر افسوس ہو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی اَکْمَلَ لِلنَّاسِ الْحُجَجَ بِالْعُقُوْلِ ۔۔۔ {اصول الکافی ۱ : ۱۳ کتاب العقل}

اللہ تعالیٰ نے عقول کے ذریعے لوگوں پر اپنی حجت پوری کی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا :

وَ حَسْبُکَ بِھَذَا النَّسِیْمِ اَلْمُسَمَّی ھَوَائً عِبْرَۃً و ما فیہ من المصالح، فَاِنَّہٗ حَیَاۃُ ھَذِہِ الْاَبْدَانِ وَ الْمُمْسِکُ لَھَا مِنْ دَاخِلٍ بِمَا یَسْتَنْشِقُ مِنْہُ مِنْ خَارِجٍ بِمَا یُبَاشِرُ مِنْ رَوْحِہٖ وَ فِیْہِ تطرد ھَذِہِ الْاَصْوَاتُ فَیُؤدِّی الْبُعْدَ الْبَعِیْدَ و ھُوَ الْحَامِلُ ھٰذِہِ الْاَرْوَاحَ یُنْقِلُھَا مِنْ مَوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ۔ اَلَا تَرَی کَیْفَ تَاتِیْکَ الرَّائِحَۃُ مِنْ حَیْثُ تَھَبُ الرِّیْحُ فَکَذَلِکَ الصَّوْتُ وَ ھُوَ الْقَابِلُ لِھَذَا الْحَرِّ وَ الْبَرْدِ الَّذَیْنِ یَتَعَاقَبَانِ عَلَی الْعَالَمِ لِصَلَاحِہٖ۔ وَ مِنْہُ ھَذَہِ الرِّیْحُ الْھَابَّۃُ فَالرِّیْحُ تُرَوِّحُ الْاَجْسَامَ وَ تُزْجِی السَّحَابَ مِنْ مَّوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ لِیَعُمَّ نَفْعُہٗ حَتّٰی یَسْتَکْثِفَ فَیُمْطِرَ وَ تَفِضَّہٗ حَتّٰی یَسْتَخِفَّ فَیَتَقَشَّی۔ وَ تُلَقِّحُ الشَّجَرَ وَ تَسَیَّرَ السُّفُنَ۔ وَ تَرَخّٰی الْاَطْعِمَۃَ۔ وَ تَبَرَّدَ الْمَآئَ۔ وَ تَشَبَّ النَّارَ۔ وَ تَجَفَّفُ الْاَشْیَآئَ النَّدِیَّۃِ وَ بِالْجُمْلَۃِ اَنَّھَا تُحْیِی کَلَّمَا فِی الْاَرْضِ ۔ {توحید مفضل ص ۱۴۱}

سمجھنے کے لیے یہی نسیم اور اس میں جو مصلحتیں ہیں کافی ہے جسے ہوا کہتے ہیں۔۱۔ کیونکہ یہ ہوا ان جسموں کی زندگی ہے۔ ۲۔ باہر سے ہوا کے ساتھ سانس لینے سے داخلی اعضا کا تحفظ ہوتا اور راحت ملتی ہے۔ ۳۔ اس ہوا کے فوائد میں آوازوں کا سننا ہے کہ یہ آواز کو دور دراز تک پہنچا دیتی ہے۔ ۴۔ تمہیں معلوم ہے کہ خوشبو تمہارے پاس ہوا کے ساتھ آتی ہے اسی طرح آواز بھی ہے۔ ۵۔ یہ ہوا اس جہاں کے فائدے کے لیے یکے بعد دیگرے آنے والی حرارت اور ٹھنڈک کو قبول کرتی ہے۔۶۔ چلنے والی ہوائیں فرحت بخش ہوتی ہیں۔ ۷۔ بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں اور اس کا فائدہ عام ہو جاتا ہے کہ جب بادل سنگین ہوتا ہے تو بارش برساتا ہے۔ جب بارش برس جاتی ہے تو یہ بادل ہلکا ہو کر پراگندہ ہو جاتا ہے۔ ۸۔ یہ ہوا درختوں میں بار داری کا عمل انجام دیتی ہے۔ ۹۔ سمندر میں کشتیوں کو چلاتی ہے۔ ۱۰۔ کھانے کی چیزوں کو نرم کر دیتی ہے۔ ۱۱۔ پانی کو ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ ۱۲۔ آگ جلانے میں مدد دیتی ہے۔ ۱۳۔ مرطوب چیزوں کو خشک کر دیتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ زمین کی تمام موجودات کے لیے ہوا حیات بخش ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کی منظم، ہم آہنگ، عظیم اور حکیمانہ خلقت ایک علیم وحکیم اورعظیم خالق کے وجود کی دلیل ہے۔

۲۔ انسانی ایجادات بھی اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کیونکہ انسان خود اللہ کی ایجاد ہے: وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ ۔۔۔۔

۳۔ مخلوقات کے ذریعے خالق کوپہچاننا عقل و تفکر پر موقوف ہے: لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ۔

۴۔ نظام کائنات کی وحدت، خالق کائنات کی توحید پر دلیل ہے


آیت 164