آیت 167
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ﴿۱۶۷﴾٪

۱۶۷۔ اور (دنیا میں) جو لوگ( ان کے ) پیروکار تھے وہ کہیں گے: کاش ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی ان سے (اسی طرح) اظہار برائت کرتے جس طرح یہ (آج) ہم سے اظہار برائت کر رہے ہیں،اس طرح اللہ ان کے اعمال کو سراپا حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں پائیں گے۔

تشریح کلمات

کَرَّۃً:

( ک ر ر ) پلٹنا۔ دوسری بار واپسی۔ پلٹ کر بار بار حملہ کرنے والے کو کرار کہتے ہیں۔

حسرۃ:

( ح س ر ) ندامت و پشیمانی کا انتہائی درجہ۔

تفسیر آیات

قائدین کے خلاف پیروکاروں کے جذبۂ انتقام کا اظہار ہے کہ دنیا میں یہ لوگ رہبر و پیشوا بن کر عزت و تکریم کے ساتھ ہم پر مسلط رہے۔ کاش! ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جاتا تو ہم ان سے اظہار برائت و بیزاری کرتے۔

قرآن مجید گمراہ کرنے والے رہبروں،پیشواؤں اور قائدین کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ کر رہا ہے کہ لوگ رہبروں اور پیشواؤں میں امتیاز کرنا سیکھیں۔ عموماً لوگ شخصیت کے جاہ و حشم سے متاثر ہوتے ہیں اور اسے حق و باطل کا معیار قرار دیتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں ایک روایت کے مطابق فرماتے ہیں:

اَلْحَقُّ لَا یُعْرَفُ بِالرِّجَالِ۔ اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعَرِفُ اَھْلَہ ۔ {روضۃ الواعظین ۱ : ۳۱}

شخصیات سے حق نہیں پہچانا جاتا، حق کو پہچانو، اہل حق کو پہچان لو گے۔

دوسری جگہ مروی ہے کہ حارث بن حوط سے فرمایا:

اِنَّکَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ اَتَاہُ وَ لَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ اَتَاہُ ۔ {نہج البلاغۃ کلمات قصار۔ حکمت : ۲۶۲۔ ص۸۹۳}

تو حق ہی کو نہیں جانتا کہ اہل حق کو پہچان سکے اور نہ ہی باطل کو جانتا ہے کہ اہل باطل پہچان لے۔

مزید مروی ہے کہ آپ (ع) فرمایا:

وَ اعْلَمُوْا اَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوْا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِی تَرَکَہٗ۔ وَ لَنْ تَأخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَقَضَہٗ وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِہٖ حَتَّی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَبَذَہٗ ۔ {اصول الکافی ۸ : ۳۸۹}

اور جان لو کہ تم ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکو گے جب تک اسے دور پھینکنے والے کی شناخت نہ کر لو۔

اہم نکات

۱۔ اگر برحق رہنما دنیا میں مل جائے تو آخرت میں حسرت نہ رہے گی۔

۲۔ ناقص رائے کی بنیاد پر قیادت جیسے اہم اور حساس مسئلے کاحل ڈھونڈنا باعث حسرت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ذمے لیا ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۴ : ۴۲، امالی مفید ص ۲۰۵


آیت 167