کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۵۱﴾ؕۛ

۱۵۱۔جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔

151۔ تلَاوت (ت ل و) کسی کے پیچھے اس طرح چلنا کہ درمیان میں کوئی غیر حائل نہ ہو۔ لہٰذا تلاوت میں اتباع کا مفہوم مضمر ہے اور بغرض اتباع پڑھنا تلاوت ہے۔

تزکیہ (ز ک و) پاکیزہ بنانا۔ یعنی روحانی ارتقاء کے لیے زمین ہموار کرنا۔ اہلیت اور قابلیت کے بعد تعلیم کا مرحلہ آتا ہے۔

فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ﴿۱۵۲﴾٪

۱۵۲۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔

152۔ تعلیم کے بعد ”ذکر“ کا مقام ہے۔ جو شخص مقام “ذکر“ پر فائز ہو، وہ اَذۡکُرۡکُمۡ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اسے یاد فرماتا ہے اور یہی عبد کی کامیابی ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

153۔ واضح ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں قانون خلقت کے تحت بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسلام جیسی انقلابی تحریک سے وابستہ ایک نظریاتی انسان کو تو اس انسانی اور الٰہی مشن میں گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا سہارا لینے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک: صبر جو انجام سے آگاہی کے ساتھ حاصل ہونے والی ایک روحانی طاقت کا نام ہے

دوسری: انسان کو اقامۂ نماز کے ذریعے اللہ کی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے۔ کیونکہ نماز ایک شخصیت ساز اور انسان ساز تربیتی نظام ہے، جس کی بدولت یہ بے ہمت انسان کائنات کی طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ پس وہ انسان کس قدر عظیم اور طاقتور ہو گا، جس کا بھروسا ذات الٰہی پر ہو۔

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔اور جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے۔

154۔ مرنے کے بعد اگرچہ ایک نظریے کے مطابق ہر ایک کو ایک قسم کی زندگی ملتی ہے لیکن شہداء کو جو زندگی میسر آتی ہے وہ آثار حیات کے اعتبار سے عام زندگی سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس طرح دنیا میں حیات نباتی و حیوانی کے مقابلے میں انسانی حیات کو ممتاز مقام حاصل ہے۔

حیات برزخی میں ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق حیات ملے گی۔ چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے: منہم من یزور کل جمعۃ و منہم من یزور علی قدر عملہ ۔ (الکافی3: 230) ان میں سے کچھ ہر جمعہ کو ایک دوسرے کی ملاقات کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے عمل کے مطابق ایک دوسرے کو مل سکتے ہیں۔

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾ۙ

۱۵۵۔اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ؕ

۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

156۔ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جب امتحان گھیر لیتا ہے تو صبر و رضا کے مقام پر فائز انسان کا مؤقف یہ ہوتا ہے: اِنَّا لِلّٰہِ ”ہم اللہ کے لیے ہیں“۔ اس نظریے سے انسان کو آزمائشوں کی منطقی توجیہ میسر آتی ہے کہ وہ فطرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک غفور و رحیم ذات کا عبد ہے جو کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتی۔ لہٰذا یہ مصائب و آلام خود ہمارے ارتقاء کے لیے ہیں۔ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ”اور ہم نے اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے“، ارحم الراحمین کے جوار رحمت میں جانا ہے۔ رجوع الی اللّٰہ کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے اللہ کی بارگاہ میں اسے حاضر ہونا ہے۔ دوسری رجوع اختیاری ہے، جس کے تحت شہداء اور اولیاء اللہ اپنی مرضی سے خود چل کر مشتاقانہ اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں۔ ان کے لیے موت شہد سے بھی شیریں ہوتی ہے۔ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعطیتہ ثلاث خصال لو اعطیت واحدۃ منہن ملائکتی لرضوا بہا منی ۔ میں نے اپنے بندے کو تین چیزیں دی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی میں اپنے فرشتوں کو دیتا تو وہ خوش ہو جاتے۔ پھر فرمایا: ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے موقع پر کہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ (الکافی 2:13)

اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۷﴾

۱۵۷۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

157۔ ایک ہمہ گیر آزمائش کے بعد جو لوگ مقامِ صبر و رضا پر فائز ہوتے ہیں، ان پر ان کے رب کی طرف سے درود ہے۔ یعنی یہ لوگ صلوات اللّہ علیھم کے مصداق ہیں۔ ائمہ اہل البیت علیہم السلام کو کئی آزمائشوں سے دو چار ہونا پڑا۔ اس بارے میں امام شافعی کی تعبیر نہایت جامع ہے: تزلزلت الدنیا لآل محمد و کادت لھم صمّ الجبال تذوب ”آلِ محمد کے مصائب نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جنہیں دیکھ کر سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں“۔ چونکہ یہ ہستیاں اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ کی اوّلین مصداق ہیں، اس لیے ہم ان پر درود بھیجتے ہیں اور ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ علیہم السلام لکھتے ہیں۔

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَ مَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے ان دونوں کا چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں اور جو اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرتا ہے تو یقینا اللہ قدر کرنے والا، خوب جاننے والا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ﴿۱۵۹﴾ۙ

۱۵۹۔جو لوگ ہماری نازل کردہ واضح نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم کتاب میں انہیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر چکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر اللہ اور دیگر لعنت کرنے والے سب لعنت کرتے ہیں۔

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶۰﴾

۱۶۰۔ البتہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ( اپنی) اصلاح کر لیں اور (جو چھپاتے تھے اسے) بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کروں گا اور میں تو بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔