قَالَتۡ لَہُمۡ رُسُلُہُمۡ اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِیَکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا: بیشک ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار میں نہیں کہ ہم تمہارے سامنے کوئی دلیل (معجزہ) اذن خدا کے بغیر پیش کریں اور مومنوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔

11۔ مشرکین بشر ہونے کو رسالت کے منافی سمجھتے تھے۔ کسی انسان پر اللہ کا احسان ہوتا ہے تو کوتاہ بین لوگ اللہ کے احسان کی عظمت کو نہیں دیکھتے، بلکہ انسان کے بشر ہونے کی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہیں۔

وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ؕ وَ لَنَصۡبِرَنَّ عَلٰی مَاۤ اٰذَیۡتُمُوۡنَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ اور ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں جب کہ اس نے ہمارے راستے ہمیں دکھا دیے ہیں، (منکرو) جو اذیتیں تم ہمیں دے رہے ہو اس پر ہم ضرور صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

12۔ حق کی ہدایت و رہنمائی اور اسے پہچاننے کے بعد اس پر توکل اور بھروسا کرنا ایک قدرتی امر ہوتا ہے۔ بھروسا اس وقت نہیں ہوتا جب معرفت اور یقین میں استحکام نہ ہو اور تردد کا شکار ہو۔ معرفت کے بعد اس کا عاشق اس کی راہ میں صبر و تحمل کرتا ہے، خواہ اس راہ میں جتنی اذیتیں دی جائیں اور اس کی قیمت کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے یا بہرصورت تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہو گا، اس وقت ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔

13۔کافر لوگ جب انبیاء کا منطقی مقابلہ کرنے سے عاجز آ جاتے تو طاقت کی منطق استعمال کرتے تھے۔ اہل حق کو وطن سے بے وطن کرتے اور مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ صبر آزما سنگین مراحل کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد فتح کی نوید سنائی جاتی ہے: لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ان ظالموں کو ہم ضرور ہلاک کرنے والے ہیں۔ اگلی آیت میں فرمایا: انبیاء علیہ السلام نے جب فتح و نصرت مانگی تو ہر سرکش دشمن نا مراد ہو کر رہ گیا۔

وَ لَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِیۡ وَ خَافَ وَعِیۡدِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ان کے بعد اس سرزمین میں ہم ضرور تمہیں آباد کریں گے، یہ (خوشخبری) اس کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے (کے دن) سے ڈرتا ہو اور اسے میرے وعدہ عذاب کا خوف بھی ہو۔

وَ اسۡتَفۡتَحُوۡا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور انبیاء نے فتح و نصرت مانگی تو ہر سرکش دشمن نامراد ہو کر رہ گیا۔

مِّنۡ وَّرَآئِہٖ جَہَنَّمُ وَ یُسۡقٰی مِنۡ مَّآءٍ صَدِیۡدٍ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اس کے بعد جہنم ہے اور وہاں اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔

یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیۡغُہٗ وَ یَاۡتِیۡہِ الۡمَوۡتُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ہُوَ بِمَیِّتٍ ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیۡظٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ جسے وہ گھونٹ گھونٹ پیے گا مگر وہ اسے نہایت ناگوار گزرے گا، اسے ہر طرف سے موت آئے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور اس کے پیچھے (مزید) سنگین عذاب ہو گا ۔

15 تا 17۔ یہ آیات مکہ میں اس وقت نازل ہو رہی ہیں کہ جب رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے والے نہایت بے بسی میں تھے اور مشرکین مکہ کی طرف سے ملنے والی اذیتیں برداشت کر رہے تھے۔ ان میں مسلمانوں کو تاریخ انبیاء اور سنت الہی کی روشنی میں یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ مکہ کے مشرکین خواہ کتنے جبار ہوں، نامراد رہیں گے اور کامیابی مسلمانوں کی ہے۔

مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو، وہ اپنے اعمال کا کچھ بھی (پھل) حاصل نہ کر سکیں گے، یہی تو بہت گہری گمراہی ہے۔

1۔ مشرکین کے اعمال حبط ہیں اور جن اعمال پر انہیں ناز تھا کل قیامت کے دن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ عین ضرورت و احتیاج کے وقت ہوا میں خاکستر کی طرح ناپید ہو جائیں گے۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ؟ اگر وہ چاہے تو تمہیں تباہ کر دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئے۔

19۔ اگر یہ دنیا صرف کافروں جیسی مخلوقات میں منحصر ہو جاتی تو آسمانوں اور زمین کی خلقت بے مقصد ہو جاتی۔ آسمانوں اور زمین کی حقانیت اس بات کی متقاضی ہے کہ جو لوگ اس کائناتی فطرت کے تقاضوں کے مطابق نہیں چلتے وہ نابود ہو جائیں اور ان کی جگہ نئی مخلوق آ جائے۔

وَّ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیۡزٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔