آیات 13 - 14
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے یا بہرصورت تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہو گا، اس وقت ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔

وَ لَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِیۡ وَ خَافَ وَعِیۡدِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ان کے بعد اس سرزمین میں ہم ضرور تمہیں آباد کریں گے، یہ (خوشخبری) اس کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے (کے دن) سے ڈرتا ہو اور اسے میرے وعدہ عذاب کا خوف بھی ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: مشرکین جب انبیاء علیہم السلام کے منطقی مقابلے سے عاجز آگئے تو طاقت کی منطق استعمال کرنے لگ گئے۔ اس سے انسان ہمیشہ سے قائم معرکہ حق و باطل کا جائزہ لے سکتا ہے کہ اہل باطل ہمیشہ دینداروں کو اپنے وطن سے بے وطن کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں اور اہل حق کمزور اور ہر مادی طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔ اہل حق کی طاقت اور اسلحہ، صبر اور اللہ کی بے پایان طاقت پر بھروسہ کرنا ہے۔ باطل، حق کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ حق، باطل کے رنگ میں رنگ جائے: اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ۔۔۔۔

۲۔ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ: جب معرکہ حق و باطل اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، آزمائش کی کڑی سے کڑی منزل طے ہو جاتی ہے اور وہ اس قدر مصائب و آلام میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وقت کا رسول اور اس کے اہل ایمان ساتھی چیخ اٹھتے ہیں : مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۱۴) آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟

اس وقت فتح و نصرت کی نوید سنا دی جاتی ہے: لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ۔ ہم ان ظالموں کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ ظالموں کی ہلاکت کے اس وعدے کو پوری تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

۳۔ وَ لَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ: ہم اس سرزمین میں تمہیں آباد کریں گے۔ کفار جس سرزمین سے انبیاء علیہم السلام کو بے دخل کرنا چاہتے تھے، اللہ ان کافروں کو ہلاکت میں ڈال کر اس سرزمین پر انبیاء علیہم السلام کو آباد فرمائے گا۔

۴۔ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِ: تباہ شدہ ظالموں کی جگہ اللہ ان لوگوں کو آباد کرے گا جو مقام خدا کا خوف رکھتے ہوں۔

اہم نکات

۱۔ آخر میں فتح ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی رہی ہے: لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ خوف خدا، فتح و نصرت کے عوامل میں سے ہے: ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ ۔۔۔۔

۳۔ ظالم کی شکست یقینی ہے: لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 13 - 14