آیت 18
 

مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو، وہ اپنے اعمال کا کچھ بھی (پھل) حاصل نہ کر سکیں گے، یہی تو بہت گہری گمراہی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: یہ مسلمہ امر ہے کہ کسی بندے کا عمل نیک ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود بندہ نیک ہو۔ بندے کے نیک ہونے میں جو درجہ ہوتا ہے اس کے مطابق اس کے عمل کو درجہ ملتا ہے۔ چنانچہ رکوع کی حالت میں دی گئی انگوٹھی زیادہ قیمتی نہ تھی کہ آیت ولایت نازل ہو جاتی بلکہ انگوٹھی دینے والی ہستی کا انگوٹھی دینے کا محرک اور خود اس کا درجہ ایمان قیمتی تھا۔ اس بیان سے واضح ہوگیا کہ کافر کا عمل نیک کیوں نہیں ہوتا۔ کافر میں کوئی نیکی نہیں کہ اس کا عمل نیک ہو جائے۔ چنانچہ آیت میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان کے بغیر عمل کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔


آیت 18