آیات 118 - 119
 

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ﴿۱۱۸﴾ۙ

۱۱۸۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔

اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے رب نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ: انسانوں میں ایک اختلاف از روئے طبائع، مزاج، سلیقہ، استعداد، لیاقت، ہوشمندی رونما ہوتا ہے۔ یہ اختلاف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اس کی نسبت اللہ نے خود اپنی طرف دی ہے:

وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ۔۔(۴۳ زخرف: ۳۲)

اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے۔۔۔۔

۲۔ وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ: دوسرا اختلاف فی الدین ہے۔ یہ اختلاف انسان کی خودمختاری کا ایک لازمی نتیجہ بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ اگر اللہ انسان کو خود مختار نہ بناتا اور لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیتا تو اس صورت میں تمام انسان امۃ واحدہ ہوتے۔ اللہ اگر چاہتا تو تمام انسان کو جبراً ایک امت بنا دیتا ایسا کرنا اللہ کے لیے ممکن تھا لیکن ایسا کرنے کی صورت میں دعوت و شریعت، بعثت انبیاء بے معنی ہو جاتی۔ لہٰذا انسان کو راستہ دکھایا مگر اس پر چلنے کے لیے جبر استعمال نہیں کیا بلکہ صحیح اور غلط کے انتخاب میں آزادی دی تو نتیجۃً یہ لوگ ہمیشہ دین کے بارے میں اختلاف کرتے رہیں گے۔

۳۔ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ: البتہ ایک فرقہ اس اختلاف سے محفوظ رہے گا اور اس جماعت پر اللہ کی رحمت شامل حال رہے گی۔ یہ لوگ ہمیشہ حق پر رہیں گے اور حق میں اختلاف نہیں کریں گے۔ اس فرقے کو اختلاف ہو گا مگر باطل کے ساتھ اختلاف ہو گا۔

۴۔ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ: اللہ نے انسانوں کو رحم کے لیے خلق فرمایا ہے اور اسی لیے ان کے لیے پہلے ہدایت کا انتظام فرمایا اور ہر چیز ان کے لیے مسخر فرمائی۔ اللہ کا نظام تکوینی و تشریعی خود بتاتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو رحم کے لیے پیدا کیا ہے لیکن یہ ناشکرا انسان ہے جو اپنے آپ کو اس رحمت کے قابل نہیں بناتا اور جہنم کا ایندھن بناتا ہے۔

۵۔ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ: اس طرح اللہ کا وہ فیصلہ بھی پورا ہو جاتا ہے جس کے تحت جہنم جنوں اور انسانوں سے پرُ ہو جائے گی۔

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

خَلَقَہُمْ لِیَفْعَلُوا مَا یَسْتَوجِبُونَ بِہٖ رَحْمَتَہٗ فَیَرْحَمَھُمْ ۔ ( الوسائل ۱: ۸۴)

اللہ نے انہیں اس لیے خلق فرمایا کہ وہ اعمال بجا لائیں جو موجب رحمت خدا ہیں پھر اللہ ان پر رحمت کرے۔

حضرت محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

اہل رحمۃ لا یختلفون فی الدین (تفسیر القمی ۱: ۳۳۸)

رحمت کے اہل لوگ دین میں اختلاف نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ دین میں اتحاد و اتفاق موجب رحمت الٰہی ہے: اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ۔۔۔۔

۲۔ انسان اپنے ارادوں میں خود مختار ہے: وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ ۔۔۔۔


آیات 118 - 119