آیت 120
 

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ وَ مَوۡعِظَۃٌ وَّ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔ اور (اے رسول) ہم پیغمبروں کے وہ تمام حالات آپ کو بتاتے ہیں جن سے ہم آپ کو ثبات قلب دیتے ہیں اور ان کے ذریعے حق بات آپ تک پہنچ جاتی ہے نیز مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو جاتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اس سورہ میں تاریخ انبیاء علیہم السلام بیان فرمانے کے بعد آخر میں اس تاریخ کے بیان کے فوائد و اغراض بیان فرمائے:

i۔ اس سے قلب رسول کو ثبات اور حوصلہ ملتا ہے کہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے بھی ایسے ہی نامساعد اور مشکل حالات میں اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ آخر میں نتیجہ ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے حق میں رہا اور ان کے مخالفین نابود ہو گئے۔ انبیاء کی تاریخ بیان کرنے سے قلب رسول ؐمیں مضبوطی آنا ایک طبعی امر ہے، چونکہ ان تاریخوں میں آیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ان تمام مشکلات کے ساتھ دوچار رہے جن سے آج رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوچار ہیں۔ تکذیب و تحقیر، ایذاء، نامعقول نامعقول مطالبے اور استہزاء و طعنے وغیرہ کا مقابلہ تمام انبیاء علیہم السلام کو کرنا پڑا لیکن انجام میں ابنیاء و مؤمنین سربلند ہوئے اور ان کے معاندین ذلیل و خوار اور نابود ہو گئے۔

ii۔ ان تاریخی واقعات میں وہ حقائق بھی کھل کر سامنے لائے گئے جو اسلامی تعلیمات کے لیے بھی اہم ہیں۔ مثلاً توحید، قیامت، قوموں کی سرگزشت میں اللہ کی سنت وغیرہ۔

iii۔ ان واقعات میں مؤمنین کے لیے بھی نہایت عبرت آموز دروس ہیں کہ تکذیب اور تکبر کرنے والوں کا انجام کیا رہا اور ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کا انجام کیا تھا۔

۲۔ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ: آیت کے اس جملے میں ہٰذِہِ کا اشارہ انباء یعنی انبیاء علیہم السلام کے حالات کی طرف ہے جو حق پر مبنی حالات ہیں جن میں نصیحت اور تذکر ہیں۔

اہم نکات

۱۔ تاریخ انبیاء علیہم السلام میں انسان ساز دروس ہیں۔

۲۔ مادی طاقت سے نفسیاتی طاقت (ثبات قلب) کی اہمیت زیادہ ہے: مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۔۔۔۔


آیت 120