آیت 113
 

وَ لَا تَرۡکَنُوۡۤا اِلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

تشریح کلمات

تَرۡکَنُوۡۤا:

( ر ک ن ) رکن کے معنی ہیں۔ کسی کی طرف مائل ہو جانا۔ جس سہارے پر کوئی قائم ہو اس سہارے کو رکن کہتے ہیں۔ اسی سے ستون کو رکن کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اسلامی سیاست اور معاشرت کی ایک اہم ترین اساس، ظلم و ناانصافی کی نفی ہے۔ اسلام اپنے معاشرے کو ظلم و تجاوز سے پاک رکھنے کے لیے جامع قوانین وضع فرماتا ہے۔ من جملہ ظالموں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات جن میں ظالم کی بالا دستی ہو ممنوع قرار دیے کیونکہ ظالم پر تکیہ کرنا:

i۔ اپنی کمزوری کا عملی اعتراف ہے۔

ii۔ ظالم کے ظلم کی تائید ہے۔

iii۔ ظالم کی بالادستی کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نفرت نہیں ہے اور یہ خود ظلم کی طرف پہلا قدم ہے۔

iv۔ استحصال کے لیے ظالم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔

v۔ ظلم کو قبول کرنا ہے۔

vi۔ جن مقاصد کے لیے ظالم پر تکیہ کیا ہے وہ حاصل نہیں ہوتے۔ یہ اسلام کا خارجی سیاسی موقف ہے کہ ظالم طاقتوں کے ساتھ معاملہ ہو سکتا ہے لیکن ان پر تکیہ کرنا جائز نہیں ہے۔

vii۔ اس کو مداخلت کا حق دینے کے مترادف ہے۔

viii۔ ظالم کی مداخلت اسلامی ریاست کی خودمختاری اور استقلال کے منافی ہے۔

ظلم کرنے والوں پر تکیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے احیاء کے لیے ظالموں کا سہارا لیا جائے۔ احیائے حق کے لیے حق کو پامال کیا جائے۔

تفسیر قمی میں آیا ہے لَا تَرۡکَنُوۡۤا کا مطلب ہے:

رکون مودۃ و نصیحۃ و طاعۃ ۔۔۔ (تفسیر القمی ۱: ۳۳۷)

محبت، نصیحت اور فرمانبرداری میں تکیہ کرنا۔

اہم نکات

۱۔ ظالم پر تکیہ کرنے والا بے سہارا رہتا ہے: ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اللہ کے علاوہ کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے: وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ۔۔۔۔


آیت 113