آیات 114 - 115
 

وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ

۱۱۴۔اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔

وَ اصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور صبر کرو یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تشریح کلمات

زُلَفًا:

( ز ل ف ) الزلفۃ کے معنی قرب کے ہیں اور رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے۔ الزلفی قرب و مرتبہ ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ: اس آیت میں (دن کے دوسروں ) سے مراد بعض احادیث کے مطابق صبح اور مغرب کی نمازیں ہیں اور ’’رات کے کچھ حصوں‘‘ سے مراد عشاء کی نماز ہے۔ اس آیت میں نماز ظہرین کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ ممکن ہے ابتدائے تشریع نماز میں نمازوں کے اوقات یہی ہوں اور معراج کے بعد پانچ نمازیں فرض کی گئیں جیسا کہ بعض مفسرین کہتے ہیں اور ضروری بھی نہیں کہ تمام نمازوں کا ہر جگہ ذکر ہو۔

۲۔ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ: نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ نیکیاں بجا لانے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ اس طرح نیکی کے دو اثرات ہوتے ہیں : ایک تو یہ کہ نیکی کا ثواب ملتا ہے اور دوسرا یہ کہ گناہ دھل جاتے ہیں۔

واضح رہے انسان اگر راہ راست پر ہو اور گناہ سرزد ہو تو اس سے آزاد ہونے کے درج ذیل ذرائع ہیں :

i۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔ وہ گناہوں کو خود معاف فرماتا ہے۔

ii۔ توبہ کے ذریعے بھی انسان گناہ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔

iii۔ نیکیوں کے بجا لانے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور یہ سب نہ ہو اور گناہوں کے بوجھ کے ساتھ وارد قیامت ہو جائے اور راہ راست پر ہو تو

iv۔ شفاعت معصومین ؑکے ذریعے گناہوں سے نجات مل سکتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایک دن لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

اللہ کی کتاب میں سب سے زیادہ امید افزا آیت کون سی ہے؟

کسی نے کہا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۱۶)

اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے۔۔۔۔

فرمایا: اچھی بات ہے لیکن وہ آیت یہ نہیں ہے۔

کسی اور نے کہا:

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ۔۔۔ (۳۹ زمر: ۵۳)

کہدیجیے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔۔۔۔

فرمایا: اچھی بات ہے لیکن یہ آیت وہ نہیں ہے۔

کسی اور نے کہا:

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۳۵)

اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یاوہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔۔۔

فرمایا: اچھی بات ہے لیکن یہ وہ آیت نہیں ہے۔

پھر جب لوگ خاموش ہو گئے تو آپؑ نے فرمایا: مسلمانو کیا بات ہے؟

لوگوں نے کہا: ہمارے پاس اور کوئی آیت نہیں ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ کتاب خدا میں سب سے زیادہ امید افزا آیت یہ ہے:

وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ﴿﴾ ( تفسیر عیاشی ذیل آیت)

اس آیت کے ذیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

صلوۃ المؤمن باللیل تذھب ما عمل من ذنب النھار ۔ (الکافی ۳: ۲۱۱)

مؤمن کی رات کی نماز دن کے گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ نماز یاد خدا کا ذریعہ اور یاد خدا گناہوں کے دھلنے کا ذریعہ ہے۔


آیات 114 - 115