وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، پس جب آپ کے رب کا حکم آگیا تو اللہ کے سوا جن معبودوں کو وہ پکارتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہوں نے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔

وَ کَذٰلِکَ اَخۡذُ رَبِّکَ اِذَاۤ اَخَذَ الۡقُرٰی وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ ؕ اِنَّ اَخۡذَہٗۤ اَلِیۡمٌ شَدِیۡدٌ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اور آپ کے رب کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، تو اس کی گرفت یقینا دردناک اور سخت ہوا کرتی ہے۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنۡ خَافَ عَذَابَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمٌ مَّجۡمُوۡعٌ ۙ لَّہُ النَّاسُ وَ ذٰلِکَ یَوۡمٌ مَّشۡہُوۡدٌ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ عذاب آخرت سے ڈرنے والے کے لیے یقینا اس میں نشانی ہے، وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب حاضر کیے جائیں گے۔

103۔ قوموں کے انحطاط اور زوال میں عمیق مطالعہ کرنے والوں کے سامنے یہ حقیقت عیاں ہے کہ یہ ہلاکتیں ایک اندھے اتفاق کے طور پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں، بلکہ کائنات پر حاکم ایک جامع قانون اور حکمت آمیز مکافاتِ عمل کا نتیجہ اور قیامت میں پیش آنے والے مکافات کا نمونہ ہیں۔

وَ مَا نُؤَخِّرُہٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعۡدُوۡدٍ﴿۱۰۴﴾ؕ

۱۰۴۔ اور ہم اس دن کے لانے میں فقط ایک مقررہ وقت کی وجہ سے تاخیر کرتے ہیں۔

10۔ قیامت کے دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکے گا۔ یعنی اللہ کی بارگاہ سے کسی قسم کی شفاعت اور التجا کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہو گی مگر یہ کہ اللہ اجازت دے دے۔

یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ شَقُوۡا فَفِی النَّارِ لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ شَہِیۡقٌ﴿۱۰۶﴾ۙ

۱۰۶۔پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بیشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔

107۔ جہنمی زندگی کی ابدیت کو بتاتے ہوئے فرمایا: جب تک آسمان و زمین موجود ہوں گے یہ لوگ جہنم میں رہیں گے۔ اس سے جہنم کے آسمان و زمین مراد ہیں، ورنہ دنیاوی آسمان و زمین تو نابود ہو چکے ہوں گے۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ سُعِدُوۡا فَفِی الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔

108۔ جو نیک بخت لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ اللہ کے وعدے کے مطابق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف ورزی کرے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی نیک بخت جنت میں نہ جائے اور ساتھ یہ بھی وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے، لہٰذا یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کسی کو جنت سے نکال دے۔ اس لیے فرمایا کہ جنت کی بخشش غیر مقطوع اور دائمی ہے۔ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ صرف اپنی قدرت کاملہ و تصرف کو بتانے کے لیے ہے کہ یہ امر کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہے، اللہ ہر وقت ہر عمل پر قادر ہے۔

فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّمَّا یَعۡبُدُ ہٰۤؤُلَآءِ ؕ مَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُہُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ غَیۡرَ مَنۡقُوۡصٍ﴿۱۰۹﴾٪

۱۰۹۔ (اے نبی) جس کی یہ لوگ پوجا کر رہے ہیں اس سے آپ کو شبہ نہ ہو، یہ لوگ اسی طرح پوجا کر رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا پوجا کرتے تھے اور ہم انہیں ان کا حصہ (عذاب) بغیر کسی نقص و کسر کے پورا کرنے والے ہیں۔

109۔ تاریخ اقوام و ملل اور ان کے انحطاط و ہلاکت کی عبرت انگیز داستانیں بیان فرمانے کے بعد فرمایا: یہ لوگ بھی انہی خطوط پر چل رہے ہیں۔ انحطاط و ہلاکت کے عوامل ان میں بھی موجود ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ ہماری سنت جاریہ کے مطابق پوری طرح مکافات عمل کی گرفت میں آجائیں گے۔ بت پرستوں کا انجام بھی وہی ہو گا۔ یہاں رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلی خاطر بھی مراد ہے اور ساتھ یہ بھی بیان کرنا مقصود ہے کہ جن بتوں کی یہ لوگ جو پوجا کر رہے ہیں وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے بارے میں شک کیا جائے بلکہ ہر صاحب عقل کو پہلی نظر میں ہی اسے مسترد کر دینا چاہیے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فیصلہ کن کلمہ نہ کہا گیا ہوتا تو ان کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس بارے میں تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔