آیات 116 - 117
 

فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِیۡہِ وَ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ تم سے پہلے قوموں میں عقل و خرد والے کیوں نہیں رہے جو زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتے سوائے ان چند افراد کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا؟ اور ظالم لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و نوش تھا اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے۔

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو ناحق تباہ نہیں کرتا اگر ان کے رہنے والے اصلاح پسند ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ: مقام تعجب ہے کہ ان قوموں میں ان تمام ہلاکتوں کے باوجود کوئی ایسی جماعت وجود میں نہ آئی جو معاشرے کو پاک رکھے اور زمین میں فساد کا راستہ روکے۔

۲۔ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ: صاحبان فہم و فضلیت۔ چنانچہ انسان بہتر، پسندیدہ اور عمدہ چیز کو محفوظ رکھتا ہے۔ اسی سے ہر عمدہ کو بقیۃ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: فلان من بقیۃ القوم ۔ یعنی فلاں قوم کا بافضل شخص ہے۔ نیز عربی محاورہ ہے: فی الزوایا خبایا و فی الرجال بقایا ۔ (الکشاف) گوشہ و کنار میں کام کی چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں اور لوگوں میں کچھ بافضل ہوتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں جتنی قومیں تباہ ہوئی ہیں ان کی ہلاکت کا بنیادی سبب یہ رہا ہے کہ وہ اس حد تک بگڑ گئی تھیں کہ ان میں سے ایک ایسی جماعت وجود میں نہ آ سکی جو خیر و اصلاح کی طرف دعوت دے۔

۳۔ وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا: بلکہ سب اس زندگی کی رعنائیوں میں مگن اور ہوس پرستیوں میں بدمست رہے ورنہ اگر ان کے اندر ایک ایسی جماعت موجود ہوتی جو لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے اور لوگ اس جماعت کے وجود کو برداشت کرتے تو ان پر عذاب نہ آتا۔ لہٰذا اگر کسی قوم میں اتنا شعور موجود ہو کہ اس میں سے اصلاح کی داعی ایک جماعت ابھر سکتی ہے اور قوم اس کے وجود کو برداشت کرتی ہے تو اس قوم کو اللہ تباہ نہیں کرتا۔ چنانچہ امت قرآن کو حکم ہوا:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿﴾

اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

بلکہ امت اسلامیہ کے بہترین ہونے کی بنیاد یہی عمل ہے۔ ارشاد ہے:

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ۔۔۔۔ ( ۳ آل عمران: ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ وہ جماعت جو خیر کی طرف دعوت دے اہل ارض کے لیے امان ہے۔

۲۔ پر تعیش زندگی کا ربط ظلم کے ساتھ ہے: مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ ۔۔۔۔


آیات 116 - 117