وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۰۱﴾ۚ

۱۰۱۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

101۔ مدینہ کے منافق اپنی منافقت میں مشاق ہو گئے تھے۔ دو مرتبہ عذاب سے کیا مراد ہے؟ ممکن ہے اس سے مراد ایک تو مقصد میں ناکامی اور فضیحت و رسوائی ہو اور ثانیاً اپنی آنکھوں کے سامنے فروغ اسلام کا مشاہدہ کرنا نیز ممکن ہے دوسرا قبر کا عذاب ہو۔

وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

102۔ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں میں کچھ لوگ ضعیف الایمان بھی تھے ان لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ جنگ میں شرکت نہ کرنے والوں کی مذمت میں آیات نازل ہوئی ہیں تو انہوں نے ندامت سے اپنے آپ کو ستون مسجد سے باندھا کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود انہیں کھولیں گے۔ یہ آیت ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں نازل ہوئی۔

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ (اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

103۔ توبہ کی قبولیت کے بعد انہوں نے اپنے اموال رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بارے میں کوئی حکم نہیں ملا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اگرچہ شان نزول خاص ہے لیکن حکم عام ہے۔

تُطَہِّرُہُمۡ : یعنی زکوٰۃ وصول کر کے ان کو بخل، طمع، بے رحمی اور دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔

تُزَکِّیۡہِمۡ : یعنی ان میں سخاوت، ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے اچھے اوصاف کو پروان چڑھائیں۔ اس طرح زکوٰۃ، اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات بھی وصول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ وَ سَتُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۰۵﴾ۚ

۱۰۵۔ اور کہدیجئے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

105۔ یعنی تم اس زندگی میں جو عمل خیر یا عمل شر انجام دو گے، اس سے اللہ آگاہ ہے۔ وہ عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ہے۔ اس سے اس کائنات میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ کائنات اللہ کا دربار ہے۔ دربار میں بیٹھ کر جو بھی کام انجام دیا جاتا ہے وہ صاحب دربار سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔

رَسُوۡلُہٗ : اللہ کا رسول بھی تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے اعمال کے شاہد ہیں۔

وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ : اور مومنین بھی تمہارے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں گے کیونکہ یہ لوگ بھی تمہارے اعمال کے شاہد ہیں۔ ائمہ اہل البیت علیہ السلام کی تفسیر و روایت کے مطابق الۡمُؤۡمِنُوۡنَ سے مراد ائمہ اہل البیت علیہ السلام ہیں۔

وَ سَتُرَدُّوۡنَ : آخرت کے دن خود تم بھی اپنے اعمال کا مشاہدہ کرو گے، جب اللہ کی بارگاہ میں جوابدہی کے لیے حاضر کیے جاؤ گے۔

اس آیت میں اگرچہ روئے سخن منافقین کی طرف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قرآنی تعبیر دیکھنا چاہیے۔ تعبیر اگر عام ہے تو قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے، صرف نزول قرآن کے زمانے کے مخاطبین تک محدود نہیں ہے۔

وَ اٰخَرُوۡنَ مُرۡجَوۡنَ لِاَمۡرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُہُمۡ وَ اِمَّا یَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے، وہ چاہے انہیں عذاب دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور اللہ بڑا دانا، حکیم ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفۡرًا وَّ تَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَیَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ضرر رسانی اور کفر اور مومنین میں پھوٹ ڈالنے کے لیے نیز ان لوگوں کی کمین گاہ کے طور پر جو پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارے ارادے فقط نیک تھے، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

107۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے مضافات میں آباد محلہ قبا میں قیام فرمایا۔ ایک جگہ نماز کے لیے معین فرمائی۔ اسی جگہ بعد میں ایک مسجد تعمیر ہوئی جو مسجد قبا سے مشہور ہے۔ منافقین نے اس کے مقابلے میں ایک اور مسجد بنائی اور بہانہ یہ بنایا کہ یہ مسجد ان لوگوں کے لیے ہے جو ضعیفی، کمزوری، تاریکی اور بارش کی وجہ سے مسجد قبا نہیں جا سکتے اور رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ ایک بار اس مسجد میں تشریف لے آئیں۔ تبوک سے واپسی پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اس مسجد کی تعمیر کے پیچھے جو منافقانہ محرکات تھے ان کو فاش کیا۔

لَا تَقُمۡ فِیۡہِ اَبَدًا ؕ لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقۡوٰی مِنۡ اَوَّلِ یَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ آپ ہرگز اس مسجد میں کھڑے نہ ہوں، البتہ جو مسجد پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو صاف اور پاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

108۔ یعنی مسجد ضرار میں کھڑے ہونے کی نہی ہے۔ کھڑے ہونے سے مراد نماز کے لیے کھڑا ہونا۔ جیسے قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا (مزمل:2) میں قیام سے مراد نماز کا قیام ہے۔ مسجد قبا کے بارے میں فرمایا: یہ مسجد تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے کہ اس میں اللہ کی عبادت ہو، مومنین کا اجتماع ہو، باہمی تعاون و تعارف ہو اور نفاق و خود غرضی سے پاک لوگوں کا اس مسجد میں اجتماع ہوتا ہے، لہذا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پاک مسجد میں نماز پڑھیں۔

اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا طلبی پر رکھی ہو وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی ہو، چنانچہ وہ (عمارت) اسے لے کر آتش جہنم میں جا گرے؟ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

109۔ دونوں مسجدوں کے بانیان میں فرق کو واضح فرما رہا ہے کہ ایک بانی اپنی عمارت کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الہی پر استوار کرتا ہے اس کو ثبات اور دوام حاصل ہے۔ جبکہ دوسرا بانی اپنی عمارت کو کھائی کے کنارے پر بناتا ہے تو ایسے بانی کی نہ صرف عمارت اس کھائی میں گر جاتی ہے بلکہ خود بانی کو لے کر گر جائے گی اور وہ بھی جہنم کی آگ میں۔

لَا یَزَالُ بُنۡیَانُہُمُ الَّذِیۡ بَنَوۡا رِیۡبَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَقَطَّعَ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔ ان لوگوں کی بنائی ہوئی یہ عمارت ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

110۔ کیونکہ اس عمارت کے بنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن مذموم مقاصد کے لیے انہوں نے یہ عمارت بنائی تھی وہ بھی پورے نہیں ہوئے اور ساتھ دنیا میں رسوائی اور فضیحت سے بھی دو چار ہو گئے۔ یہ ندامت اور حسرت ان کے دلوں میں مرتے دم تک رہے گی۔ دلوں کا پاش پاش ہونا، ممکن ہے موت کی طرف اشارہ ہو۔