آیات 103 - 104
 

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ (اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات بھی وصول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

جب ان حضرات کی توبہ قبول ہوگئی اور ستون مسجد کی بندش سے آزاد ہوگئے تو وہ اپنے اموال لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے تو آپؐ نے فرمایا: مجھے اس سلسلے میں کوئی حکم نہیں ملا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۔ خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً: شان نزول اگرچہ خاص افراد ہیں لیکن قرآن کا حکم عام ہے، قیامت تک کے لیے ہے اور صاحبان نصاب سے زکوٰۃ وصول کرنا، مستحب زکوٰۃ و صدقات وصول کرنا، سب اس میں شامل ہیں۔

۲۔ تُطَہِّرُہُمۡ: اے رسول زکوٰۃ وصول کر کے ان لوگوں کو بخل، طمع، بے رحمی، دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔

۳۔ تُزَکِّیۡہِمۡ: ان میں سخاوت، ہمدردی، ایثار و قربانی جیسے اچھے اوصاف کی نشوو نما کریں۔ اس طرح زکوٰۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔

۴۔ وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ: زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے لیے دعا کریں۔ اگرچہ واجب کام ادا کیا جا رہا ہے، اگرچہ یہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب خود ان کو ملتا ہے، اگرچہ تمام فوائد و نتائج زکوٰۃ دینے والے کے حق میں ہیں ، اگرچہ زکوٰۃ وصول کرنے والا خود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا، پھر بھی زکوٰۃ دہندہ کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔ اس کی قدر دانی کرنی چاہیے کیونکہ اس کے اس عمل خیر میں اس کے ذاتی اجر و ثواب کے علاوہ مسلم معاشرے کے ایک محروم طبقے کے لیے آسودگی ہے۔ مسکینوں کی داد رسی ہے۔ غریب و نادار لوگوں کی آس ہے۔

۵۔ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ: اس دعا سے ان کو سکون ملتا ہے کہ یہ صدقہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوا ہے۔ دعا اس کارخیر کا ایک روحانی اور معنوی معاوضہ بھی ہے جس سے اس احساس کی تلافی ہوتی ہے جو مال کے ہاتھ سے جانے سے انسان میں وجود میں آ سکتا ہے۔

۶۔ اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا: اگر علم ہو جائے کہ اللہ توبہ قبول کرتا ہے تو وہ یاس و ناامیدی کا شکار نہیں ہوتے اور توبہ عمل میں آ جاتی ہے۔

۷۔ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ: صدقات قبول فرماتا اور ثواب کی ضمانت دیتا ہے۔ یہاں نبیؐ کی طرف اخذ کرنے کو اللہ کا اخذ کرنا قرار دیا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔

ان الصدقۃ تقع فی ید اللہ قبل ان تصل فی ید السائل۔ (الوسائل ۹: ۴۳۳)

صدقہ سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ زکوٰۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے: تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ ۔۔۔

۲۔کسی محتاج نے زکوٰۃ وصول کی تو ایسا ہے کہ خود اللہ وصول کر رہا ہے: یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ ۔۔۔۔


آیات 103 - 104