آیت 101
 

وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۰۱﴾ۚ

۱۰۱۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

تشریح کلمات

مَرَدُوۡا:

( م ر د ) المرد اڑ جانا۔ مہارت حاصل کرنا یا بمعنی سرکش و طغیان ہونا کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ: مدینہ کے گرد و پیش دیہاتوں میں موجود اہل نفاق کی اجمالی نشاندھی ہے اور دیہاتی منافقین اپنی دیہی سطح فکر کے مطابق منافق ہیں۔

دو مرتبہ عذاب سے مراد ممکن ہے ایک دنیا میں فضیحت و رسوائی، دوسرا عذاب قبر اور عذاب عظیم آخرت میں ہو اور ممکن ہے دنیا میں ہی دوہرا عذاب ملے لیکن آیت میں اس عذاب کی نوعیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔

۲۔ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ: شہری ہونے کے اعتبار سے مدینہ کے باشندوں کو نفاق میں مہارت ہے اور وہ ہوشیاری سے نفاق کرتے ہیں۔ مثلاً جہاں کوئی بے ضرر موقف اختیار کرنا ہوتا ہے وہاں بڑھ چڑھ کر بولنا، زیادہ اخلاص کا مظاہرہ کرنا اور جہاں کوئی قربانی دینا پڑتی ہے وہاں بڑی مہارت سے عذریں تراشنا وغیرہ۔

۳۔ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ: آپؐ ان منافقوں کو نہیں جانتے۔ مصلحت اسی میں تھی کہ ان کے بارے میں اجمالی علم ہو اور تفصیلی علم اللہ نے کسی کی طرف منتقل نہ کیا ہو۔ چنانچہ بعض منافقین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علم ہونے پر بھی ان کو برملا نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ تبوک سے واپسی پر ان منافقین کا علم ہو گیا تھا جنہوں نے رسول اللہؐ کو شہید کرنے کی سازش کی تھی پھر بھی ان کو بے نقاب نہیں کیا اور حضرت حذیفہؓ کو حکم فرمایا کہ یہ راز کبھی بھی فاش نہ کرنا۔

چنانچہ ابن عساکر کی روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا دی تو وہ سچا مسلمان ہو گیا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہؐ میرے اور بھی منافق ساتھی ہیں۔ میں ان کا رئیس تھا۔ کیا میں ان کو آپ کے پاس لے آؤں ؟ تو حضورؐ نے فرمایا:

۔۔۔ لاتخرقن علی احد ستراً ۔ (تفسیر القاسمی۔ ۸:۳۰۶)

کسی کا پردہ چاک نہ کرو۔

لَا تَعۡلَمُہُمۡ اور قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ۔۔۔ (۹ توبۃ: ۹۴) میں منافات نہیں ہے۔ چونکہ جنگ تبوک میں جن لوگوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی ان کے بارے میں اجمالی خبر دی تھی اور اس آیت میں تفصیلی علم کی نفی ہے۔ اسی طرح آیہ:

وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ۔۔۔ (۴۷ محمد: ۳۰)

اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے۔۔

کے ساتھ بھی منافات اور تضاد نہیں ہے چونکہ کچھ منافقین کو حضورؐ بھی جانتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ آپؐ ان سب منافقین کو نہیں جانتے۔

۴۔ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ: ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے۔ ایک بار دنیا میں رسوا کر کے دوسری بار قبر میں یا دنیا میں قتل و اسیری اور قبر کا عذاب مراد ہے۔

اہم نکات

۱۔ منافق اپنی منافقت پر مہارت رکھتا ہے: مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۔۔۔۔

۲۔ نفاق یعنی دو روئی اختیار کرنے والے کو دوہرا عذاب ملے گا: سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ۔۔۔۔


آیت 101